پراسرار بیماری کا شکار” سولر بچے“

حال میں پاکستان میں تین ایسے بچوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے جوایک پراسرار مرض کاشکارہیں اور ڈاکٹروں نے ان کانام سولر بچے رکھا ہے کیونکہ یہ بچے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں لیکن جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو ان بچوں کے جسم توانائی بھی کم ہونے لگتی ہے۔

منگل 26 جولائی 2016

Purisraar Bimari Ka Shikar Solar Bachay
غلام اللہ کیانی:
حال میں پاکستان میں تین ایسے بچوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے جوایک پراسرار مرض کاشکارہیں اور ڈاکٹروں نے ان کانام سولر بچے رکھا ہے کیونکہ یہ بچے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں لیکن جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو ان بچوں کے جسم توانائی بھی کم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔

اسلام آباد کے ہسپتال میں ان بچوں کو دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہورہے ہیں۔ یہ بچے کوئٹہ سے یہاں لائے گئے ہیں۔ انوکھی بیماری کے شکار ان بچوں کے لاتعداد میڈیکل ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے لاہور اور اسلام آبادتک ابھی کوئی اس بیماری کانام وپتہ نہیں بتاسکا ہے۔ یہ کون سی بیماری ہے۔ اس کی وجوہات کیاہیں۔

(جاری ہے)

اس کی کیا تشخیص ہوگی۔ علاج کیسے ہوگا۔

کوئی نہیں جانتا۔ اس نئی بیماری کی علامات بھی انوکھی اور منفرد ہیں۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بیماری ہے۔ اس سے پہلے یہاں اس طرح کی بیماری کی کوئی تاریخ یامثال نہیں ملتی ہے۔ محمد ہاشم خضدار کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ میاں گھنڈی نامی یہ چھوٹا ساگاؤں کوئٹہ سے صرف 45 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں محمد ہاشم کے گھر پیداہونے والے ایک نہیں بلکہ پانچ بچے اس بیماری کے شکار ہوئے ہیں۔

دوکی لاعلاج موت واقع ہوچکی ہے۔ اب یہ کل چھ بہن بھائی ہیں۔ دوبہنیں اور ایک بھائی معمول کی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن تین بھائی اس نئی بیماری میں مبتلا ہیں۔ شعیب کی عمر 14سال، عبدالرشید 9 اور الیاس ایک سال کا ہے۔ طلوع آفتاب کے وقت یہ بچے بیدارہوتے ہیں۔ ان کاجسم معمول کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ یہ مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

اچھلتے کودتے ہیں۔ معمول کی خوراک تناول کرتے ہیں۔ سورج ان کی زندگی ہے۔ جوں ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے۔ ان کی زندگی بھی غروب ہونے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے جسم سے توانائی ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ لاغرہوکر گرپڑتے ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد سے ان کے جسم نیم مردہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے۔ بات کرنا کجا ہونٹ بھی نہیں لاسکتے۔ اور بھر سوجاتے ہیں۔

نیند موت کا دوسرا نام ہے۔ اگلی صبح یہ پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔ پھراسی طرح سورج کے ساتھ ہی ان کی نقل وحرکت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی طلوع اور غروب ہوتی ہے۔ گل آفتاب کے بارے میں سب نے سنا ہوگا۔ دیکھا بھی ہوگا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ پھول کھل اٹھتا ہے۔ یہ سورج کے ساتھ ہی اپنا رخ بھی تبدیل کرتا ہے۔ جس طرف سورج، اسی جانب اس پھول کاکھلا ہوا چہرہ، رات کو یہ مرجھا جاتا ہے۔

اسی لئے اس گل آفتاب کہتے ہیں۔ ان بچوں کو کیانام دیا جائے۔ ڈاکٹروں نے ان کانام سولر بچے رکھا ہے۔ یعنی شمسی توانائی پر چلنے پھرنے والے بچے۔ اب شمسی توانائی پرزندہ رہنے والا انسان دریافت ہوا ہے۔ جسے آدم آفتاب یاسولر انسان بھی کہاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ یہ کیا بیماری ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ علاج کیا ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ انسان ہی اپنی ہلاکت کے اسباب پیداکرتا ہے۔

اس وقت ہمیں دستیاب ہر چیزمصنوعی ہے یہ جعلی اور مصنوعی پن انسان میں بھی ہے۔ بازار میں ہر چیز نقلی دستیاب ہے۔ دودھ دہی، انڈا، مرغ، مصالحے سبھی چیز مصنوعی ہے ۔ ہم مجبور ہیں۔ جب معیاری چیز نہ ملے تو یہی استعمال کرنا مجبوری ہے۔ دودھ کے بارے میں نئے سروے آرہے ہیں کہ اس میں واشنگ پاؤڈر، کیمیکلز اور زہریلی چیزیں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ دودھ نہیں بلکہ سفیدی ہوتی ہے۔

سفید رنگ بھی ہوتے ہیں۔ یوریاتک اس میں ڈالی جارہی ہے۔ لوگ زہریلی مٹھائیاں اور زہریلا دودھ پی کرمررہے ہیں۔ زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے قصے سب نے سنے ہوں گے۔ شراب ویسے بھی حرام ہے۔ حلال اشیاء بھی زہریلی ہورہی ہیں جن کے استعمال سے انسان کی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں کون چیکنگ کرے گا۔ زیادہ تر لوگ راتوں رات دولت مند بننے کی لالچ میں ہیں۔

یہ رشوت ایسے لیتے ہیں جیسے اس پر ان کا حق ہو۔ کہتے ہیں کہ نوکری پر گزبسر نہیں ہوتا۔ کیاکریں۔ دوم یہاں طبقہ بندیاں بھی ہیں۔ ایک دفتر میں بیٹھنے والا دولاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھا دوسرا چند ہزار روپے لے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے معیار زندگی میں زمین اور آسمان کا فرق ہوگا۔ نیز ستم یہ دولاکھ والا چند ہزار والے کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔

دونوں ادارے کے ملازم ہیں۔ لیکن افسر کم تنخواہ دار کو بھی اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ یوں یہ بے چارہ ایک تنخواہ پر کئی ملازمتیں کرتا ہے۔ کئی افسروں کی ملازمتیں۔ا سے ملاوٹ جیسے دونمبر کام کرنے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ جبکہ دونمبر کام بے ایمانی ہے۔ یہ بالکل جائزنہیں ہوسکتا ہے۔ بازاروں میں ساگ سبزیاں۔ پھل فروٹ بھی مصنوعی بک رہے ہیں۔ یہ بھی کیمیکل سے تیار کئے جاتے ہیں۔

درختوں سے کچے اتار کران پر زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔ یہ فوری پک جاتے ہیں۔ قدرت کے ساتھ یہ ہمارا ہنک آمیز مقابلہ ہے۔ انسان آکے مدمقابل کچھ بھی نہیں آسکتا۔ قدرت سے کوئی نہیں لڑسکتا۔
شمسی توانائی اور چاندنی راتیں بھی ہرجاندار کے لئے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ ان میں طاقت ، مٹھاس، ٹھنڈک ، یعنی ہرتوانائی کاپہلو ہے۔ معلوم نہیں یہ بچے وٹامنز یاپروٹینز یاکسی دیگر کمی کا شکار ہوئے۔

ان کے سینکڑوں ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ ابھی بھی جاری ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف میڈیسن امریکہ، برطانیہ کے نیشنل ہوس پیٹل فارنیوالجی ایدنیوروسسرجری اور دیگر سے بھی رابطہ کیاجارہاہے۔ پاکستان انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنز یا پیمز ہسپتال اسلام آباد کے ڈاکٹروں کے ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹروں سے رابطے ہورہے ہیں۔ ٹیسٹوں کا جائزہ لیاجارہا ہے۔

یہ تین بھائی ہی اس بیمار میں مبتلا نہیں بلکہ ان کے دو بھائی اس مرض کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان کا والد چھوٹا کسا ن بھی ہے اور آئی ٹی یونیورسٹی میں نائب قاصد بھی ہے۔ اس نے اپنی کزن کے ساتھ شادی کی ہے۔ تاہم حیرانی ظاہر کی جارہی ہے ان بچوں میں دوبہنیں بالکل صحت مند ہیں۔ اگر پاکستانی ڈاکٹرز اس بیماری کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے توپاکستان دنیا کونئی بیماری سے متعارف کرنے والا ملک بن جائے گا۔ میڈیکل کی تاریخ میں پاکستان کے لئے انوکھی بیماری اور اس کی تشخیص اور علاج کا ایک موقع ہے۔ وفاقی حکومت نے ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ سرکاری خرچ پر ان کے ٹیسٹ کئے جارہے ہیں۔ اللہ کرے یہ بچے جلد صحت یاب وشفایاب اور پاکستان تمام بیماریوں سے محفوظ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Purisraar Bimari Ka Shikar Solar Bachay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 July 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.