قومی اداروں کی ” لوٹ سیل“

پاکستان کی خوشحالی کیلئے نجکاری نہیں ایمانداری ضروری ہے

جمعہ 8 جنوری 2016

Qaumi Idaron Ki Loot Sail
عثمان یوسف قصوری :
پاکستان گزشتہ 68برسوں میں ترقی وخوشحالی کی منازل طے کرکے ایشین ٹائیگربننے میں کامیاب کیوں نہیں ہوپایا؟ یہ سوال ہے جو تمام محب وطن پاکستانیوں کے ذہنوں میں گردش کرتارہتاہے۔ دراصل پاکستان پرحکمرانی کرنے والوں کی اکثریت اس کے وسائل اور دولت کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے۔ جانے والی حکومت قومی خزانہ خالی کرجاتی ہے جس کوبھرنے کیلئے نئی حکومت اندھادھند قرضے حاصل کرناشروع کردیتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ نئی حکومت گزشتہ کی روش پرچلتے ہوئے کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی ایسی داستان رقم کرتی کہ لوگ پچھلوں کوبھول کرنئے حکمرانوں کوکوسنا شروع کردیتے ہیں۔ آج پاکستان کے نااہل اور کرپٹ حکمران امیرترین افراد کی فہرست میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ ملک وقوم کاشماردنیا کے غریب ممالک کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے اندرونی وبیرونی قرضوں کاحجم 20ہزارارب کے قریب پہنچ چکاہے۔

قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں کو پاکستان کاکرپٹ سیاسی ماحول اس قدر راس آیا ہے کہ وہ یہاں سے اربوں ڈالرز سودکی مد میں وصول کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف جیسے ادارے پاکستانی حکومتوں کوکڑی شرائط پرقرض مہیاکرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ان کے قرض اور سود کی رقم کی واپسی کویقینی بنایاجاسکے۔ ان میں سے ایک پاکستان کے قومی اداروں کواونے پونے فروخت کرکے ان نجکاری کرنا بھی شامل ہے۔

چنانچہ پاکستان کی موجود حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرتے ہوئے بہت سے منافع بخش قومی اداروں کوپرائیویٹائز کرنے جارہی ہے اور پراپیگنڈا کیاجارہاہے کہ نجکاری ان اداروں کی بقاء کیلئے لازمی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ان اداروں میں پی آئی اے جیسا ادارہ بھی شامل ہے جس نے ماضی میں اپنی شاندار کارکردگی کے باعث متحدہ عرب امارات کی معروف فضائی کمپنی کے عملہ کی تربیت کرتے ہوئے اس کی پروان اور ترقی میں اہم اور لازوال کردارادا کیاتھا۔

تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آج اس کی شاگرد کمپنی کاشماردنیا کی جدید ائیر لائنز میں ہوتاہے جبکہ پی آئی اے اپنی بری حالت پرنوحہ کناں ہے۔ عرب ممالک کے حکمران اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ ائیرلائن بزنس دنیا کی کتنی بڑی انڈسٹری کاروپ دھارچکی ہے۔ اس لئے وہ پی آئے کی نجکاری میں حد سے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس بات کااندازہ یوں لگایاجاسکتا ہے کہ اس کے شیئرز کی فروخت کیلئے دبی اسلامک بنک کے سربراہی میں ایک کنسورشیم بنایاجاچکا ہے۔

اس کنسورشیم کی جانب سے حکومت کو یہ عندیہ دیاگیا ہے کہ ملک کے آئین میں پی آئی اے سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنا اشد ضروری ہے۔ اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ1956ء کاپی آئی اے ایکٹ اس بات کی ہرگزاجازت نہیں دیتا کہ اس اہم منافع بخش قومی ادارے کے شیئرز فروخت کئے جائیں یااسے سرمایہ داروں کے کنٹرول میں دیا جائے۔ اس لئے حکومت اس قانون میں تبدیلی کر کے اس جگہ نیاایکٹ لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

پی آئی اے کی متوقع نجکاری کے باعث احتجاجی تحریک شروع کررکھی ہے۔ اس تحریک کے شدت پکڑنے کے باعث وزیراعظم میاں نواز شریف سیاسی حکمت کے تحت پی آئی اے کے کارکنوں کویہ کہہ چکے ہیں کہ اگرملازمین اس ادارے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کرداراداکریں گے تووہ نجکاری کا یہ پروگرام ملتوی کردیں گے۔ اس کے مقابلے میں عوام بھی وزیراعظم اور سیاستدانوں سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخروہ کب تک اقرباء پروری، سیاسی نوازشوں کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اداروں کوبربادکرتے رہیں گے؟ اس حوالے سے اہم خبر یہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے حکومتی قرارداد مستردکردی ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق تصویرکادوسرا رخ دیکھنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حکومت اس کی نجکاری کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نجکاری کے حوالے سے حکومتی عہدیدارمنقسم نظر آتے ہیں۔ پی آئی اے کے ایڈوئزرشجاعت عظیم کے خلاف سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعدان کایہ کہنا ہے کہ نجکاری کے معاملے کوپرائیویٹائزیشن کمیشن دیکھ رہا ہے اور وہ اس سلسلے میں کوئی کردارادانہیں کررہے۔

دراصل شجاعت عظیم چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے بجائے اسے ازسرنواستحکام بخشنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس حوالے سے ان کایہ کہنا ہے کہ جب وہ فروری 2014ء میں پی آئی اے کے ایڈوئزرہے توایئرلائن کے پاس 18طیارے تھے اور اب ان کی تعداد38کے قریب پہنچ چکی ہے۔ پی آئی اے نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 2.38 ارب روپے منافع کمایااور یہ بات حوصلہ بخش ہے کہ پی آئی اے خسارے سے نکل کر منافع کمانے لگی ہے یہاں سب سے اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومت پی آئی اے کے شیئرزفروخت کرکے اسے پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی بنانے پربضدکیوں ہے؟ اس کاجواب صرف اور صرف یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کوپورا کرناچاہتی ہے جس کا مطالبہ ہے کہ اس کے 26فیصدشیئرزفروخت کرکے پی آئی اے کاکنٹرول منتقل کردیاجائے۔

ان اداروں کی کارکردگی انہیں پرائیویٹائزکرنے کی بجائے ایمانداراور مخلص افسران وعملہ کے باعث ممکن ہوسکتی ہے۔ ماضی میں جن اداروں کوپرائیویٹائز کیاگیا‘ ان کے خریداروں نے اس کی کارکردگی کوبہتر بنانے کے بجائے منافع کمانے کو ترجیح دی۔ اس کی ایک مثام پیکوفیکٹری کی صورت میں دی جاسکتی ہے۔ اسے خریدنے والوں نے اس کے پلاٹ بناکرفروخت کردئیے۔ اس طرح پی ٹی سی ایل کے محض 26 فیصد شیئرزاتصالات سے کمپنی کو فروخت کرکے اس کامکمل کنٹرول دیدیاگیا۔ یہ کمپنی تاحال 30ہزار ملازمین کو فارغ کر چکی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ پی ٹی سی ایل کے اثاثے بیچنے کی بھی کوشش کی جاچکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qaumi Idaron Ki Loot Sail is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.