رزقِ حلال کی اہمیت اور مزدوروں کے حقوق

برائے اشاعت خاص یکم مئی یوم مزدور

ہفتہ 30 اپریل 2016

Rizq e Halal Ki Ahmiat Aur Mazdooron K Haqooq
محمد راشد تبسم
اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے جس کے تمام قوانین فطرت کے عین مطابق ہیں ۔ اس میں زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ موجود ہے۔ چاہے حالات جیسے بھی ہوں، اسلام اپنے پیروکاروں کو تنہا نہیں چھوڑتا اور ان کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔معاشرے میں کسی فرد کی کوئی بھی حیثیت ہو، اسلام نے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو واضح کردیا ہے۔

درحقیقت دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا مذہب ہی دینِ اسلام ہے۔ معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنانے کیلئے ان حقوق وفرائض کی پابندی لازمی ہے۔ معاشرے میں محنت مزدوری کرنے والے کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسلام نے بھی مزدور کو معاشرے میں عزت واحترام دیا اور اس کی سماجی حیثیت اور مقام و مرتبے کو بلند کیا۔

(جاری ہے)

یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منانے کا آغاز اس وقت ہوا جب مغربی دنیا میں مزدوروں کے حوالے سے شعور پیدا ہوا۔

اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے ہیں ۔ اسلام میں بھیک مانگنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ دین اسلام ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو محنت کئے بغیرناجائز طریقے سے کماتے ہیں ۔مزدورکو سب سے پہلے اسی دین نے ہی وسیع اور جامع ترین حقوق دیے۔ مزدورں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بھی یہی دین ہے۔

مزدور کے حقو ق کا اندازہ نبی مکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔آج مغرب میں مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت آواز بلند کی جاتی ہے جبکہ اسلام نے آج سے 1400پہلے ہی مزدور کے حقوق متعین کر دیے تھے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں رزقِ حلال کمانے اوراللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے ۔” جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو“ (سورہ جمعہ)۔اس آیت مبارکہ میں حلال رزق کمانے کو فضلِ الٰہی کہا گیا ہے۔احادیث میں بھی حلال رزق کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔نبی اکرم ﷺ نے ناجائز طریقے سے روزی کمانے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہو گا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لئے زادِ راہ ثابت ہو گا۔

ایک صحابی کے ہاتھ محنت مزدوری کرنے سے سوج گئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا ” کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکے آخری خطبہ حجة الوداع کو انسانی حقوق کا منشور کہا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ”اپنے غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو“۔

نبی کریم ﷺ نے ایک اور جگہ پر ہاتھ سے کمانے والے آدمی کے متعلق یوں فرمایا: ”اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔ “ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے دنیا میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسول بھیجے ۔

انہوں نے نہ صرف انسانوں کو رشد وہدایت کی دعوت دی بلکہ خود محنت مزدوری کرکے روزی کمائی۔ ہر نبی نے بکریاں چرائیں اور گلہ بانی کی ۔حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے روزی کماتے تھے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ یادس برس تک اس طرح مزدوری کہ کہ اس پوری مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا۔

(مشکٰوةشریف) آج انہی انبیاء کرام کو ماننے والوں کے معاشرے میں محنت اور مزدوری کو ذلیل شعبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نبی رحمت حضرت محمد ﷺ کی سیرت مقدسہ سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کا پتہ چلتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے : ”ہاتھ سے کمانے اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔“ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی نے نبی کریم ﷺ سے کچھ سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے جواب دیا کہ صرف کمبل اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔

آپ ﷺنے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس کو کون خریدے گا۔ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ان کی اس سے زیادہ کوئی قیمت دے سکتا ہے؟ ایک اور صحابی نے کہا کہ میں اس کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے یہ اشیاء اس صحابی کے حوالہ کیں اور دو درہم صحابی کو دے کر کہا کہ ایک درہم کی کلہاڑی اور ایک درہم کا گھر کے لیے سامان لے آؤ۔

انہوں نے ارشاد نبوی ﷺ کی تعمیل کی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کلہاڑی میں دستہ لگا کر ان کو دیا اور فرمایا جاؤ اس سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، اب پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا، وہ صحابی جب پندرہ دن کے دن حاضر ہوئے توآپﷺ نے پوچھا کیا حال ہے؟ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے دس درہم کما لیے ہیں ، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم سے غلہ خریدا ہے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اْٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے؟ نبی رحمت حضرت محمد ﷺ نے ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہوں۔

درحقیقت اسلام نے اپنے پیروکاروں میں ایسی سوچ پیدا کر دی تھی کہ جس سے ہر شخص محنت مزدوری میں فخراور بھیک مانگنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام کسی دوسرے پر اپنا معاشی بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حلال رزق کمانے کیلئے ہر قسم کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے اور محنت و مشقت کرنے سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رزق کمانے کیلئے مختلف پیشوں کو اختیار کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کپڑے کے تاجر تھے۔ وہ خلیفہ بننے کے بعد وہ کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے ۔ راستہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔

آپ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اگر کپڑا نہیں بیچوں گا تو اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا۔ پھر ان کیلئے تنخواہ مقرر کر دی گئی۔دیگر صحابہ کرام بھی محنت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہار تھے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی وقاص تیر سازتھے تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ درزی، حضر ت بلا ل بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر میں نوکر تھے تو حضر ت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجام، حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔

ازدواج مطہرات اور صحابیات بھی محنت کرنے گھبراتی نہیں تھیں۔ وہ گھروں میں اون کاتتی اور کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں ،کچھ خواتین کھانا پکا کر اورکچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں۔ کچھ صحابیات دایہ کا کام کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب بنت حجش (زوجہ رسولﷺ) کے بارے میں فرمایاکہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اورا للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے مال کمانے سے روکتا نہیں بلکہ ان کو ترغیب اور عزت و احترام دیتا ہے ۔ چنانچہ محنت و مزدوری سے حلال رزق کمانے اور جائز پیشہ اختیار کرنے کو بہت بڑی عبادت کہا گیا ہے۔ انبیاء، صحابہ ، صلحاء سب نے محنت مزدوری کر کے ہی ضروریات زندگی حاصل کیں۔ ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے محنت مزدوری کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Rizq e Halal Ki Ahmiat Aur Mazdooron K Haqooq is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.