سیاحت اور معاشی استحکام

زرمبادلہ بڑھانے کا ایک بہت بڑاذریعہ سیاحت کا شعبہ ہے جس کو پاکستان میں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ دنیا میں اس وقت کئی ممالک کا دو تہائی بجٹ جس شعبہ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ سیاحت ہے۔ کیریبیئن ممالک کے چھوٹے چھوٹے سے ملک اپنی سیاحت کے بل پر ہی کثیر زرمبادلہ حاصل کررہے ہیں جیساکہBarbuda&Antigue جیسے حیدرآباد سے بھی چھوٹے ملک کی سیاحت کا حصہ اسکی جی ڈی پی میں57.1فیصد

بدھ 12 اکتوبر 2016

Siahat Or Muashi Istehkaam
شیخ منظر عالم:
زرمبادلہ بڑھانے کا ایک بہت بڑاذریعہ سیاحت کا شعبہ ہے جس کو پاکستان میں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ دنیا میں اس وقت کئی ممالک کا دو تہائی بجٹ جس شعبہ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ سیاحت ہے۔ کیریبیئن ممالک کے چھوٹے چھوٹے سے ملک اپنی سیاحت کے بل پر ہی کثیر زرمبادلہ حاصل کررہے ہیں جیساکہBarbuda&Antigue جیسے حیدرآباد سے بھی چھوٹے ملک کی سیاحت کا حصہ اسکی جی ڈی پی میں57.1فیصد، ایمپلائمنٹ میں 51.6فیصد ،برآمدات میں 65.8فیصد اور سرمایہ کاری میں 41فیصد حصہ ہے جبکہ اسکی فی کس آمدنی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے اور Barbadosکی جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 39.5فیصد، روزگارکی فراہمی میں 39.2فیصد ،برآمدات میں 60.4فیصد اور سرمایہ کاری میں 22.8فیصد حصہ ہے جبکہ اسکی فی کس آمدنی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

اسکے علاوہ تھائی لینڈ کے سیاحت کے شعبہ کا انکی جی ڈی پی میں حصہ 20.2 فیصد ہے یعنی 73.78 بلین ڈالرز ہے، متحدہ ارب امارات کی جی ڈی پی میں انکی سیاحت کا حصہ 8.7فیصد یعنی 31.96 بلین ڈالرزہے جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی میں سیاحت کے شعبہ کا حصہ 7.1فیصد یعنی 16.03 بلین ڈالرز ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاحت کے فروغ کیلئے چند چیزیں انتہائی ناگزیر ہوتی ہیں جیسے ماحول اور فضا کاسازگار اور مناسب ہونایعنی امن وامان ہونا ، بنیادی سہولتیں ہونا یعنی رہائش کی سہولیات اورہوٹلز وغیرہ ہونا،جگہ محل و وقوع کے لحاظ سے خوبصورت ، دیدہ زیب اور دلفریب ہو۔

جہاں تک محل ووقوع کا تعلق ہے تو شاید پاکستان دنیا کے دس بہترین ملکوں میں سے ایک ہوگا جس میں بندر گاہیں ہیں،وسیع سمندر ہیں، بہترین موسمی حالات ہیں اور وہ سب کچھ ہے جس کیلئے قومیں اور ملک ترسا کرتے ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو سیاحت کیلئے ایسے دلفریب نظارے اور مقام دئیے ہیں اگر وہ دنیا کی نظروں میں آجائیں اور بیرونی سیاح اس امیدسے وہاں آئیں کہ وہاں انکی جان و مال محفوظ رہے گی تو میرا یقین ہے کہ لوگ سوئٹزر لینڈ، اورلینڈو، پیرس اور کینیڈاکے مناظر اور آبشاریں بھول جائینگے جب وہ شنگریلہ، کالام ، ناران ، کاغان ،مالم جبہ، کلر کہار، مری ،چترال اور آزادکشمیر کے علاقوں لیپا ویلی،نیلم ویلی، کیرن اور کیل کے خوش کن اور دلفریب مناظر جبکہ ٹھٹھہ ، مکلی،ہڑپہ، موئن جو دڑو، قلعہ روہتاس جیسے تاریخی مقامات دیکھیں گے تو پوری دنیا ادھر کا رخ کریگی۔

مگر ہمارے وہ عالمی 'دوست " جو اس وقت دنیا کی معیشت پر پوری طرح قابض ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں اسی لئے انہوں نے اپنی مفادات میں پیدا کی گئی دہشتگردی کی جنگ کوہمارے ارباب اختیار کے کمزور اور عاقبت نااندیش فیصلوں کی بدولت اس طرح ہمارے دروازوں تک پہنچا دیا ہے کہ وہ آجکل ہماری جنگ بنی ہوئی ہے اور اس وقت جس بہادری اور جوانمردی سے ہماری مسلح افواج جنرل راحیل شریف کی قیادت میں نبرد آزما ہے میرا یقین ہے کہ ہم اس جنگ میں بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہوکر اپنے ان علاقوں کو مکمل امن و امان کا گہوارہ بنادینگے۔

2008 سے پہلے پاکستان میں سالانہ پانچ لاکھ سیاح آیا کرتے تھے مگر اب انکی آمد صفر کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں نانگا پربت پر سیاحوں کے بیس کیمپ پر حملہ پاکستان کی سیاحت کے تابوت میںآ خری کیل ثابت ہوا جس میں کئی ملکی وغیر ملکی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا ۔ اسی لئے اکثر ممالک نے پاکستان کو سیاحت کیلئے غیرمحفوظ ملک قرار دیا ہے۔مگر امن وامان کی بہترین صورتحال میں زیادہ سے ذیادہ سیاحوں کوپاکستان کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔

اسکے علاوہ ان علاقوں میں تھوڑے سے ترقیاتی کام کرکے دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں جس کیلئے خیبر پختونخواہ حکومت اپنے زیر انتظام ان علاقوں میں خوداپنی مدد سے اور وفاقی حکومت کے تعاون سے صاف اور کشادہ سڑکیں بنائے جن کی وجہ سے بلند و بالا پہاڑیوں اور برفانی چوٹیوں تک رسائی کے آسان مواقع ہوں اورساتھ ساتھ خوبصورت ریزورٹ بنادیں تومیں سمجھتا ہوں سیاحت کے شعبہ کو بہت فروغ حاصل ہوگا اور دنیا کے سیاحوں کی ایک کثیر تعدادان خوبصورت مقامات کا نظارہ کرنے آئیگی جو یقیناً پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا سبب بنے گی۔

یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب حکومت نے مری اور اسکے آس پاس کی حدود میں آمدو رفت کے نظام کو کافی بہتر بنایا ہے مگر امن و امان کی بے یقینی کیفیت اور انتظامی لاپرواہیوں کی وجہ سے وہاں کے کئی خوبصورت مناظر اور تاریخی مقامات نظر انداز ہورہے ہیں۔ اسکے علاوہ تاریخی مقام کلر کہار پر توجہ دینے کیساتھ ساتھ دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ اور سرگودھا کے درمیانی پہاڑی علاقوں میں بھی خوبصورت ریزورٹس بنانے اور ان علاقوں میں تعمیر وترقی کے منصوبے شروع کرنے سے بھی ہماری سیاحت کو ترقی دی جاسکتی ہے۔

اسی طرح سندھ کی حکومت ٹھٹھہ ،مکلی، موئن جو دڑواور دیگر تاریخی مقامات اور ورثوں کی تشہیر کرکے دنیا کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکتی ہے۔
مثال کے طور پر ملائشیاء کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے چھوٹے سے آبائی گاوٴں لنکاوی میں گرآنڈ پلس ون عجائب گھر بنایا ہے جس میں گرآنڈ فلور پر مہاتر محمد کو بطور سربراہ مملکت جو تحفے بین الاقوامی مہمانوں نے دیئے تھے وہ رکھے ہوئے ہیں اور اسکی پہلی منزل پر ان کی بیگم کو جو تحائف ملے تھے وہ موجود ہیں۔

اس عجائب گھر کی وجہ سے ہی آج کل ایک کروز شپ تھائی لینڈ کے علاقے پھوکٹ سے لنکاوی تک جاتا ہے جہاں بے شمار سیاح اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں مجھے بھی 1999میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اسکے علاوہ پاکستان کو قدرت نے سمندر ی ساحلوں کی فیاضی سے بھی نوازا ہوا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی 1046کلو میٹر طویل ہے جبکہ Antigue & Barbudaکی ساحلی پٹی 153کلو میٹر طویل، Barbadosکی 97کلو میٹر طویل اور مکاوٴکی 50.63کلومیٹر طویل ہے یعنی پاکستان کی ساحلی پٹی ان ممالک کی ساحلی پٹی کے مقابلے میں کئی گنا طویل ہے۔

مگرافسوس ناک بات یہ ہے کہ ان ممالک کی سیاحت تو ترقی کررہی ہے اور اسی سے اپنے ملک کا دوتہائی سے زائد بجٹ حاصل کررہے ہیں بلکہ ان ممالک کی بقاء کا انحصار سیاحت ہی ہے مگر ہم اپنی ساحلی پٹی سے ذرا برابر بھی فائدہ نہ اٹھاسکے ہیں حالانکہ کراچی اور سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ساحلی پٹی بہت خوبصورت ہے جس میں کند ملیر، اورماڑہ، گڈانی، سونمیانی ، آواران ، مکران اورگوادر قابل ذکر ہیں بلکہ کند ملیر کو دنیا کا بہترین ساحل سمجھا جاتا ہے۔

مگر یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ سہولیات کا فقدان ہے اور امن وامان کے مسائل ہیں مگر حکومت اگر توجہ دے اور کچھ سرمایہ کاری کرے تو پاکستان کی ساحلی پٹی دنیا کی کسی بھی ساحلی پٹی سے کم نہیں۔ اس لئے اگر اب بھی ہمارے ارباب اختیار مغلیہ دور کے بادشاہوں کے شوق ترک کرکے سنجیدگی کے ساتھ سیاحتی مقامات کو اپنے ملک کے زمینی حقائق کے مطابق جدید بنانے پر توجہ دیں اور عالمی سیاحوں کی توجہ اسکی جانب مبذول کرائیں توہم صرف ان تفریحی مقامات اور شعبہ سیاحت سے لاکھوں ڈالرز سالانہ زرمبادلہ حاصل کرکے معاشی استحکام حاصل کرسکتے ہیں جو اس وقت ہم اپنی عاقبت نااندیش پالیسیوں اور بین الاقوامی سازشوں کے جال میں پھنس کر ضائع کررہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siahat Or Muashi Istehkaam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.