سندھ کے سیاسی پرندے

یہ آشیانہ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے

پیر 16 مئی 2016

Sindh K Siasi Parinday
الطاف احمد مجاہد:
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں ڈاکٹر عالم کو سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے حوالے سے بطور مثال پیش کیاجاتا ہے لیکن یہ اس دور کا حصہ ہے جب کبھی کبھار کوئی اپنی سیاسی جماعت یاقیادت کو چھوڑ کر کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کرتاتھا کہ اب سیاسی وفاداریوں تبدیل کرنا ایک معمول کی بات سمجھتی جاتی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے تو” لوٹا کریسی“ ایک مکمل باب ہوگا جس میں بڑے بڑے نام دیکھنے کو ملیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ ،ری پبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی پی، جونیجو لیگ، ق لیگ ن لیگ سے لے کر تحریک انصاف تک سیاسی وفاداریوں کو تبدیلی کے حوالے سے ایک بڑی فہرست ملے گی لیکن چونکا دینے والی بات آج کل کراچی میں ہورہی ہے جہاں 56روز میں 6ارکان سندھ اسمبلی وفاداریوں تبدیل کرچکے ہیں ان میں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے ممبر شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اپنی پارٹیاں چھوڑ کرجانے والوں نے پاک سرزمین پارٹی اور پیپلزپارٹی کاانتخاب کیا ہے۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ میں پی پی کے ساتھی اسحاق ایڈووکیٹ سمیت متعدد دیگر شامل ہوئے ہیں شمولیت اختیار کرنے والوں میں فنکشنل لیگ کی افشاں عمران بھی ہیں جو سندھ اسمبلی کی سابق رکن ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر احمد، افتخار عالم اور بلقیس مختار جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حفیظ الدین نے پاک سرزمین پارٹی جوائن کی ہے جبکہ متحدہ کے پونجوبھیل نے پی پی کا چناؤ کیا ہے۔

یہ تمام ارکان سندھ اسمبلی ہیں ویسے تو افتخار ندھاوا اور دیگر بھی پی ایس پی میں گئے ہیں لیکن عام سیاسی کارکنوں کے مقابلے میں ارکان اسمبلی کی آمدورفت عوامی سیاسی حلقوں کو چونکارہی ہے۔ پی پی کے دیرینہ کاکن، متحدہ کے حلف یافتہ، تحریک انصاف کے کارکن یوں راستے بدلیں تو اچھنبا لازمی ہوگا کیونکہ کراچی میں سٹنگ ارکان اسمبلی کی جانب سے سیاسی وفاداریوں تبدیل کرنے کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

ہاں ا س کی ایک مثال 92ء کے فوجی آپریشن کے بعد ضرورملتی ہے جب متحدہ کو بغاوت کاسامنا تھا تو اس طرح کچھ ارکان اسمبلی نے مہاجرقومی موومنٹ ( حقیقی) کوجوائن کیا تھا کسی اور وقت اسمبلی میں موجود کسی اور جماعت نے ان کا ساتھ نہیں دیاتھا۔اس بار پی ٹی آئی کے حفیظ الدین نے بھی مصطفی کمال کو عمران خان کی جگہ قائد تسلیم کیا ہے گویا حالیہ سیاسی ہلچل سے پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف سمیت کوئی نہیں بچا۔

ذرا بڑے کینوس پرجائزہ لیں توا لیکشن 2013ء کے وقت مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ٹھٹھہ کے شیرازی، تھر کے ارباب دادؤ کے جتوئی، نوشہرہ،فیروز کی این پی پی، لاڑکانہ کے ممتاز بھٹو اور خیر پور کے غوث علی شاہ آج اس سے نالاں ہیں۔ لیاقت جتوئی داغ مفارفت دے کر اپنی عوامی تحادپارٹی کو فعال کرچکے ہیں۔ نوشہرہ فیروز کے جتوئی بھی این پی پی کے احیاء پر تلے ہوئے ہیں۔

ممتاز بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کو بحال تو نہیں کیا لیکن اس کا اجلاس ضرور طلب کیا تھا جومسلم لیگ ن میں موجود ماروی، میمن، راحیلہ مگسی ودیگران کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ماضی میں ق لیگ اور پرویز مشرف کے دست وباز واب ن لیگ کے پلیٹ فارم پر اعلیٰ مناصب ہتھیائے ہوئے ہیں جبکہ مشرف عہد میں سختیاں بھگتنے والے راندہ درگاہ ہیں۔شاہ پورچاکر کے سینئر مسلم لیگی مرحوم، راؤعبدالشکور زندگی کے آخری لمحات تک تاسف بھرے لہجے میں درجنوں نام لیتے تھے جنہیں نظرانداز کیا گیا اور ان کی جگہ شیرازی، ارباب، جتوئی، پگارا مگسی فیضاب ہوئے۔

ایسا صرف ن لیگ میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے حد تک پی پی میں بھی سلیم جان مزاری ظفر علی شاہ کے سکھر کے ناصر شاہ، گھوٹکی کے مہر برادران،ٹنڈوالہیار کے عرفان مگسی، بدین کے ہالیپوتہ، جام شورو کے ملک اسد سکندر سمیت متعدد نام ایسے ہیں جو کٹھن دورمیں ساتھ نہیں تھے۔ تحریک انصاف سندھ کے نادر اکمل لغاری مشرف دور میں وزیر تھے۔ سندھ کی سیاسی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی تھا جب فنکشنل لیگ وفاق میں پی پی کی اتحادی اورسندھ اسمبلی میں پی پی حکومت کے مد مقابل اپوزیشن میں تھی اور قائد حزب اختلاف اس کے جام مددعلی ہوا کرتے تھے۔

سندھ کے بعض سیاسی گھرانے سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی میں پیش پیش ہیں اور یہ ٹھٹھہ، بدین، تھر، گھوٹکی، سکھر، نوشہرہ فیروز، کشمور، خیر پور نواب شاہ، ٹنڈومحمد خان،ٹنڈوالہیا، شہداد کوٹ کے اہم نام ہیں ضلع کانام لیں تو یہ خانو ادے خود بخود وزیر بحث آجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh K Siasi Parinday is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.