سندھ میں زرعی معیشت کی تباہی

کسان کہاں جائیں، کس سے انصاف مانگیں

پیر 19 ستمبر 2016

Sindh main Zarayi Maeeshat Ki Tabahi
الطاف مجاہد :
سندھ میں زراعت کو خطرات لاحق ہیں، صوبے کی آبادی کاحصہ 70فیصد ہے سے زائد اس شعبے پر انحصار کرتا ہے۔ گنے کپاس، گند، اور دھان کے آبادگار ہر فصل پر حکومت کی بے حسی ‘ آڑھتی کی من مانی اور ناقص بیج غیر معیاری کھاد غیر مئوثر ادویہ اور مہنگے زرعی آلات کا شکوہ کرتے ہیں، لیکن ان کے دکھ درد کامداوا کوئی نہیں کرتا۔

ڈھاک کے تین پات کی کہاوت سنی تھی، مریں کوماریں شاہ مدارکامحاورہ بھی لیکن عمل شکل میں اطلاق عہد حاضر میں دیکھا جب زراعت، تعلیم صحت اور امن وامان سمیت تمام شعبوں اور محکموں کاآوے کاآوا بگڑتے نظرآیا۔
وسطی زیریں اور بالائی سندھ میں ان دنوں پھٹی، کپاس ، مرچ، دھان اور کئی دیگر فصلیں مارکیٹ میں آچکی ہیں، گنے کی فصل تقریباََ تیارہے اور ہر سال یک اکتوبر سے شوگر کین ایکٹ کے مطابق کرشنگ سیزن کا شروع ہونا لازمی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن گزشتہ کئی برسوں سے گنابیلنے کا عمل نومبر دسمبر تک جاپہنچتا ہے۔ گنے کی کٹائی کے بعد تاخیر سے خریداری کافائدہ شوگر مل مالکان کا پہنتا ہے کیونکہ دیرہونے کے باعث وزن کم اورمٹھاس زیادہ ہوجاتی ہے۔ صوبے میں کم وبیش ڈھائی درجن کے لگ بھگ ملیں ہیں جوبااثر افراد اور خاندانوں کی ملکیت ہیں، حکومت سے یہ 30۔32 کارخانے کنٹرول نہیں ہوتے تو وہ بدامنی کو کس طرح ختم کرے گی اور دیگر مسائل پر کیسے قابو پائے گی؟ زیریں سندھ میں دھان کے ریٹ فصل کے اترتے وقت گیارہ سوروپے چل رہے تھے لیکن اب آڑھتی یاپیڈھی مالکان 2سوروپے کم کرکے 9 سو روپے کے ریٹ دے رہے ہیں ساتھ ہی بوری کاوزن نمی اور کچرابتاکر 7کلوفی 40گرام کٹوتی بھی کی جارہی ہے۔

چونکہ حکومت نے سرکاری مراکز خریداری قائم نہیں کئے اس لئے مڈل مین کی من مانیان بڑھتی جارہی ہیں اور کاشکاروں کو رائس مالکان اور تاجروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ماتلی کے سینئر صحافی محمد اسلم قائم خانی بتانے لگے کہ مل مالکان دھان کا چھلکا 4سوروپے من اور چورا، جومویشوں کے چارے میں استعمال ہوتا ہے ، 12سوروپے فی من فروخت کررہے ہیں۔

ا نہوں نے یہ بھی بتایا کہ دھان کی بوائی کے وقت یہی چاول انہیں 11سوروپے فی کلو اور 4400 روپے فی من خریدنا پڑتا ہے ارو اس بیج کی تصدیق بھی نہیں ہوتی۔ کاشتکار یہ بھی بتاتے ہیں کہ دھان کی بوئی ، نگہداشت اور دیگر مراحل پر جو لاگت آتی ہے وہ بھی بسااوقات پوری نہیں ہوتی جبکہ آڑھتی اور مل مالکان دونوں ہاتھوں سے فائدہ سمیٹتے ہیں۔ اس وقت بھی 8سے 9 سوروپے فی کلو گرام خریدے جانے والے دھان کا چھلکا اور چورا بھی دھان کی قیمت کے حساب سے فروخت ہورہا ہے، پھر زرعی پانی کی قلت ہے اور فصلیں تباہ ہورہی ہیں، گنے کے آباد گار بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اس کی قیمت 3روپے فی من مقرر کی جائے ، سندھ کازرعی شعبہ آڑھتی یاپیڈھی مالکان کا کردار ختم کرنے کا بھی مطالبہ کررہا ہے کہ کیونکہ ان کے الفاظ ہیں کسان پورے سال سردی گرمی محنت کرتا ہے تو اسے ملنے والی رقم مڈل مین کی ایک دن کی آمدنی سے بھی کم ہوتی ہے۔

یہی حال بہائبرڈ اور لونگی مرچ ‘ پھٹی کے کسانوں کا ہے، وہ بھی مناسب نرخ نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ زرعی سماج میں معیشت کو مستحکم کرنے والے طبقات ہی مشکلات سے دو چارہوں توملک یا صوبہ کس طرح ترقی کرے گا۔
گنے کے آبادگارفی من نرخ 250 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نرخ سیزن ختم ہونے یا فصل اترنے کے بعد مقرر کئے جانے کاسارا فائدہ آڑھتی اور مل مالکان سمیٹ لیتے ہیں اس لئے قبل ازکٹائی قیمتوں کا اعلان کیاجائے اور تمام شوگر ملوں کے برائلر یاچمنیاں 24ستمبر تک روشن کرنے کو یقینی بنایاجائے تاکہ ایک ہفتہ ہیٹ پکڑنے کے بعد وہ یکم اکتوبر سے گنا بیلنے کا عمل شروع کر سکیں اور اگر ایسا نہ ہواتو 20اکتوبر کو چیف منسٹرہاؤس پرکراچی میں دھرنا دینگے حکومت کو جے یوآئی کے دھرنے سے سبق لیناچاہیے، جس کے ہزاروں کا رکن کراچی پہنچے تو حکومت نے خالد سومروقتل کیس کی انسداد دہشت گردی عدالت منتقلی کی یقین دہانی کرادی حالانکہ یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا۔

سندھ کنری کی مرچ منڈی کو اہمیت حاصل ہے یہاں ان دنوں ہائبرڈ اور لونگی مرچ کی اقسام فروخت کیلئے لائی جارہی ہیں جو بالترتیب 3ہزار اور 6ہزارروپے فی من فروخت ہورہی ہیں حالانکہ یہ رقم بمشکل لاگتی اخراجات پورے کرے گی۔ یہی کیفیت دھان کی ہے۔ بدین سجاول اور ٹھٹھہ وٹنڈو محمد کان اضلاع میں ایک ہزار روپے فی من کی بجائے دھان کے نرخ آڑھتی 780 روپے فی من دے رہے ہیں۔ سندھ کی حکومت مارکیٹ کمیٹیاں اور متعلقہ ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کسان کہاں جائیں اور کس سے انصاف طلب کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh main Zarayi Maeeshat Ki Tabahi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.