سوا ت میں لڑکی کوکوڑے مارنے کی حقیقت بے نقاب…!

یہ الہام ہے نہ کشف و کرامات کا معاملہ ہے بلکہ بعض واقعات اس انداز سے رونما ہوتے ہیں کہ خود ہی اپنا بھید کھول دیتے ہیں۔ بس ذرا واقعاتی شواہد کا اگر عمیق نظر سے جائزہ لے لیا جائے۔

منگل 26 جنوری 2016

Swat Main Larki Ko Koray Marne Ki Haqeeqat Be Naqab
اسرا ر بخاری:
یہ الہام ہے نہ کشف و کرامات کا معاملہ ہے بلکہ بعض واقعات اس انداز سے رونما ہوتے ہیں کہ خود ہی اپنا بھید کھول دیتے ہیں۔ بس ذرا واقعاتی شواہد کا اگر عمیق نظر سے جائزہ لے لیا جائے۔ سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی خبر پر جس طرح مغربی ذرائع ابلاغ میں ”سیاپا“ پیٹا گیا تھا اگر معاملہ صرف پاکستانی طالبان کے رویوں جو شدت پسندی کی حدود کو چھوتے محسوس ہو رہے تھے صرف گیری مقصد ہوتا تو شاید اس سے صرف نظر ممکن تھا لیکن جب بنیاد پر اسلام کے تعزیری نظام کو نشانہ بنایا گیا تو سوچ کے دائرے از خود اس کے تمام پہلووٴں کا جائزہ لینے تک پھیل گئے جس چیز سے سب سے پ ہلے توجہ حاصل کی وہ یہ کہ لڑکی کو سرعام کوڑے مارے جانے کے غیر معمولی واقع کی ویڈیو فلم اس مجمعے میں موجود کسی شخص کی جانب سے کسی ٹی وی چینل کو کیوں نہیں ملی اس مجمعے میں موجود کئی لوگوں کے پاس کیمرہ موبائل فون موجود ہوں گے اور تھے تب ہی تو فلم بنی تھی اور جب سب لوگ اس ”عبرت ناک“ منظر دیکھنے میں محو تھے خاموشی سے ویڈیو بیان اور پھر اسے کسی ٹی وی چینل کو بھیج دیتا بہت آسان تھا اکثر ٹی وی چینلز کو اس طرح کی ویڈیوز ملتی رہتی ہیں لیکن متذکرہ فلم ایک خاص این جی او کو کیوں فراہم کی گئی تھی اور زیادہ تر جس کے وابستگان بلکہ جس کی وابستگان ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہیں اس ”کیوں“ سے حاصل تجزیاتی روشنی میں جو نتائج اخذ ہوئے ان کی بنیاد پر مندرجہ ذیل کالم ضبط تحریر ہوا لڑکی کو کوڑے مارے جانے کی باتصویر خبر نوائے وقت سمیت تمام اخبارات میں 3 اپریل 2010ء کو شائع ہوئی جس پر 7 اپریل 2010ء کو متذکرہ کالم نوائے وقت میں شائع ہوا جو نذرِ قارئین ہے۔

(جاری ہے)


سازشی سرگرم‘ محب وطن دم بخود!
داد دینی چاہیے امریکی مقاصد کی آلہ کار این جی اوز اور لادین عناصر مغربی تہذیب کے نقالچی اور ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے افراد نے ایک ویڈیو فلم کے ذریعہ سوات میں نفاد شریعت کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ناپسندیدگی کی فضا پیدا کرنے کے لئے نفاذ شریعت کی مسخ شدہ تصویر پیش کر کے ان کی کوششوں کو سبوتاڑ کرنے اور اس کے حامیوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خاص نقطہ نظر کے حامل افراد نے جس شدت سے یہ مہم چلائی اور این جی اوز نے اس کے منفی پہلووٴں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اگر یہ نہ ہوتا تو حیرت کی بات ہوتی۔ اس لحاظ سے افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سنجیدہ مذہبی افراد بھی پروپیگنڈہ کے اس طوفان میں بہہ گئے بجا کہ کوئی ذی ہوش ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کی حمایت نہیں کر سکتا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ایک لمحہ ٹھہر کر چند اہم پہلووٴں پر بھی غور کر لیا جائے تو بہتر ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیو ایک ایسے مقام پر بنائی گئی جہاں ایک دوسرے سے مکمل طور پر آشنا علاقے کے لوگ جمع تھے ایک مجمع میں ویڈیو بنانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے پھر یہ کہ یہ ویڈیو فلم این جی او کی سرگرم خاتون کا رکن ثمر من اللہ کے پاس کیسے پہنچی جس لڑکی کو کوڑے مارے گئے اس پر بیک وقت چار الزامات لگائے جانے کا دعویٰ کیاگیا ہے۔ (1) اس کے اپنے سسر سے تعلقات تھے۔

(2) طالبان میں شامل ایک نوجوان اس لڑکی سے شادی کا خواہش مند تھا انکار پر اس نے جھوٹا الزام لگا کر کوڑے لگوائے۔ (3) اس کے پڑوس میں ایک نوجوان الیکٹریشن تھا لڑکی کے گھر والوں نے بجلی ٹھیک کرانے کے لئے اسے گھر بلایا اسے گھر میں آتا جاتا دیکھ کر کسی نے دیکھ لیا اور طالبان کو اطلاع کر دی جس پر طالبان لڑکی اور اس لڑکے کو پکڑ کر لے آئے اور کوڑے لگانے کے بعد دونوں کی زبردستی شادی کرا دی جس سے لڑکے کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا۔

(4) لڑکی پردے کے بغیر بازار میں کسی محرم کے بغیر گھر آگئی تھی اس لئے سزا دی گئی۔
کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم یار سے لوگ خبر الگ الگ
ویڈیو فلم میں لڑکی کی چیخیں سنائی گئیں۔ مگر یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ پشت اور پشت کے نازک حصے پر 34 کوڑے کھانے کے بعد فوراً اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر بڑے آرام کے ساتھ چلی گئی جیسے اسے 34 کوڑے نہیں پھول مارے گئے ہیں حالانکہ اسے تو اسٹریچر پر بھی بہت اذیت کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔

34 کوڑوں کی خوبیوں کے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ سیدھی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ یہ ویڈیو فلم ایک ایسے موقع پر منظر عام پر لائی گئی جب صدر باراک اوبامہ ان قبائلی علاقوں پر زیادہ شدید حملے کرنے کے منصوبے کا اعلان کر رہا ہے وہ سوات میں نفاذ عدل کے بعد یہاں قائم ہونے والے امن و امان کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ جب امریکہ کی کوشش ہے کہ اے این پی اور صوفی محمد کے مابین ہونے والے معاہدہ کو ناکام بنا دیا جائے جب صدر آصف زرداری پر اس معاہدہ پر دستخط کرنے کا دباوٴ بڑھ رہا ہے۔

ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کو شرعی عدالتوں کے قیام کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ابھی صحیح معنوں میں یہ عدالتیں قائم ہی نہیں ہوئی ہیں ابھی جناب صدر آصف زرداری نے دستخط ہی نہیں کئے تو سوات میں نظام عدل کو کیسے ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایسی یہ ایک ویڈیو دنیا بھر میں دکھائی گئی جس میں ایک برقع پوش افغان عورت کو سرعام گولی مارتے دکھایا گیا تھا بعد میں ثابت ہوگیا کہ یہ ویڈیو فلم فرانس میں بنائی گئی تھی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خاص موقع کے لئے لڑکی کو کوڑے مارنے کی فلم کیا ہالی وڈ یا بالی وڈ میں تیار کی گئی ہے“۔ حرف آخر یہ کہ سوات میں نظام عدل کا معاہدہ اس لئے تو کیا گیا ہے کہ اگر طالبان کا کوئی اسلام سے ہٹ کر ظالمانہ نظام تھا تو اس کی جگہ صحیح شرعی عدالتی نظام لایا جائے اور جب یہ صحیح نظام آ جائے گا تو طالبان کا نظام خود بخود تحلیل ہو جائے گا۔

تو پھر جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات نہ ہوں انہیں جلد از جلد صحیح شرعی نظام لانے کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ طالبان کے اس نظام سے جان چھوٹ جائے ویسے اصلی طالبان کتنے غیر مہذب وحشی اور ظالم ہیں طالبان کی قیدی یو آنے ریڈل کی کتابی شکل میں سرگزشت پڑھ لی جائے۔مذکورہ لڑکی کے شوہر نے سوات کے تھانہ کبل میں درج مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں بیان دیا تھا کہ یہ وڈیو جھوٹی ہے اور میری بیوی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 12 جنوری 2016ء کو وڈیو کو جعلی قرار دیکر کیس نمٹا دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Swat Main Larki Ko Koray Marne Ki Haqeeqat Be Naqab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.