تاریخ سفید چھڑی

آپ نے اکثر و بیشتر مختلف گزرگاہوں پر ایسے افراد کو دیکھا ہو گا جنہوں نے ہاتھ میں سفید رنگ کی قریباََ 5فٹ لمبی چھڑی تھام رکھی ہوتی ہے۔

منگل 8 نومبر 2016

Tareekh Safaid Chari
آپ نے اکثر و بیشتر مختلف گزرگاہوں پر ایسے افراد کو دیکھا ہو گا جنہوں نے ہاتھ میں سفید رنگ کی قریباََ 5فٹ لمبی چھڑی تھام رکھی ہوتی ہے ۔ سفید چھڑی ایسے افراد کہ جو کلی یا جزوی بینائی سے محروم ہیں ان کا بین الاقوامی نشان ہے۔ ویسے تو دنیابھر میں ٹاکنگ سٹک، لیزرکین، وائبریٹنگ سٹک، لانگ سٹک مشہور اقسام ہیں مگر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چھڑی فولڈنگ سٹک کہلاتی ہے ۔

جو ایلومینیم اور فائبر پر مشتمل 4ٹکڑوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اسے مضبوط لاسٹک سے باہم جوڑ دیا جاتا ہے۔ سفید چھڑی استعمال کرنے والے افراد اس کے Upperحصے کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر سیدھے، سامنے اور اُلٹ گھماتے ہیں اس طرح ان تین سمت کوئی بھی رکاوٹ ان سے ٹکرانے کے بجائے چھڑی سے گ کر نابینا کو خبردار کر دیتی ہے ۔

(جاری ہے)

دنیا بھر میں ٹریفک لاء تک میں یہ نشان موجود ہے اور راہ گیر ی نہیں سائیکل سوار سے گاڑی سوار تک اس کا احترام کرتے ہیں ۔

چھڑی کا استعمال کئی صدی پہلے سے کیا جا رہا ہے مگر سفید چھڑی کا باقاعدہ استعمال 1921ء میں انگلینڈ کے شہر برسٹل سے تعلق رکھنے والے ایک فوٹو گرافر نے اس وقت شروع کیا جب وہ ایک حادثے میں نابینا ہو گے ۔ اس فوٹو گرافر کا نام James Bigz تھا۔ انہوں نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ اس لیے کیا کہ لوگ دور سے پہچان سکیں کہ یہ شخص نابینا ہے ۔ پھر 1931 ء میں فرانس کے مسٹر گیلی نے وسیع پیمانے پر وائیٹ کین موومنٹ کا آغاز کیا اور 7فروری 1931 کو کئی وزراء کی موجودگی میں دو لوگوں میں سفید چھڑی تقسیم کی یہ پہلی باقاعدہ تقریب تقسیم سفید چھڑی تھی پھر آپ ہی نے 5ہزار سفید چھڑی تیار کر کے جنگ عظیم میں نانینا ہونے والے افراد میں تقیسم کیں۔

امریکہ میں سفید چھڑی وہاں کے شہرت یافتہ ادارے لائنز کلب انٹرنیشنل کے ایک ممبر جارج نے اس وقت متعارف کروائی جب انہوں نے ایک نابینا شخص کو چھڑی کے سہارے سڑک کراس کرتے دیکھا۔ انہوں نے اس پر سفید رنگ کیا تاکہ ٹریفک کے رش میں بھی یہ واضح نظر آسکے۔ تحفظ سفید چھڑی کا پہلا آرڈنینس 1930 میں پاس ہوا ۔ لانگ وائیٹ کین امریکہ کے ایک شہری رچرڈ ای ہوورڈ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد متعارف کروائی ۔

امریکی آج بھی اسے ہوور سٹک کہتے ہیں۔ 6اکتوبر 1964 کو امریکی کانگریس نے ایک بل پاس کیا جس میں امریکی صدر جانسن کو یہ اختیار دیا کہ وہ ہر سال 15اکتوبر کو یوم سفید چھڑی منانے کی منظوری دے دیں جو انہوں نے دے دی۔ جس کی اب تک 170 سے زائد ممالک توثیق کر چکے ہیں پاکستان میں اس قرار داد پر 1981 میں دستخط کئے اس بل کا نام HR750 ہے ۔ چنانچہ ہر سال دنیابھر کے نابینا 15اکتوبر کو اپنا عالمی دن مناتے ہیں۔

انگلینڈ میں اگر کسی شخص کے سفید رنگ کی چھڑی پر دو سرخ ربن بندھے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گونگا اور بہر ہ بھی ہے۔ بعض ممالک میں گرین کین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کا استعمال کرنے والا شخص جزوی نابینا ہے۔ جیسا کہ ارجنٹائن کی پارلیمنٹ نے نومبر 2002 میں گرین کین پروٹیکشن بل منظور کیا تاکہ مکمل نابینا کے لیے سفید چھڑی اور جزوی کے لیے گیرین کین کے فرق سے دونوں میں فرق واضح کیا جا سکے۔

پاکستان میں 1981میں قومی سال برائے معذوران منایا گیا اور پاکستان میں نابینا افراد کی تنظیم سازی کا آغاز کرنے والی شخصیت ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو ستارہ امتیاز سے نوازا اور آپ کو مجلس شوریٰ کا رکن بنایا گیا اسی سال بہت سے نابینا اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ، بے روزگاروں کو روز گار ملا۔ جنرل ضیاء الحق ے نیشنل فیڈریشن کے ذریعے قرآن پاک کی بریل پرنٹنگ شروع کی۔

جو 1979 میں بینظیر نے حکومتی خزانے پر بوجھ کہہ کر بند کر دی۔اور اس وقت نیشنل فیڈریشن فار دا بلائنڈ ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ مشرف دور میں معذور افراد کے لیے اسپیشل شناختی کارڈ متعارف کرایا گیا جس کے تحت کئی سہولیات کا وعدہ کیا گیا جو کسی نے آج تک پورانہیں کیا۔ اس موقع پر سب سے بڑی زیادتی جس کے ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے اسرار شاہ ہیں یہ کی گئی اس کارڈ میں وہیل چیئر کا علامتی نشان سب پر مسلط کر دیا گیا کیونکہ شاہ صاحب ایک حادثے میں ٹانگوں سے معذور ہوئے تھے اور وہ اس وقت معذوروں کے ٹھیکیدار تھے ۔

جن سے معذور مل تک نہیں سکتے تھے اور آج تک نابینا حکومت اور نادرا سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہماری سفید چھڑی کا نشان اس اسپیشل کارڈ میں شامل کیا جائے۔ افسوس کی بات بھی ہے کہ ملک میں باقاعدہ کوئی سٹک میکنگ یونٹ نہیں اس سلسلے میں سیالکوٹ کے محمد شریف کا ذکر ضروری ہے جو گزشتہ 40سال سے UGGOKI میں سفید چھڑی کا کارخانہ چلا رہے ہیں جو تقریبا ہر سال 30 ہزار سفید چھڑی 2سو سے 5سو روپے تک اداروں کو فروخت کرتا ہے جبکہ کچھ نابینا کراچی، لاہور، اسلام آباد میں چھوٹے پیمانے پر چھڑیاں تیار کر رہے ہیں۔

اگر جائز ہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سفید چھڑی سے متعلق آگہی کے حوالے سے اسپیشل ایجوکیشن ،سوشل ویلفیئر ، وزارت اطلاعات کی کارکردگی صفر ہے جبکہ میڈیا کی بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال گورنمنٹ کالج برائے نابینا لاہور کے 2طالب علم سفید چھڑی سمیت کچل دئیے گے ۔ مگر اس پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی نہ ہی ڈرائیور نہ ہی ٹرانسپورٹ کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔

سفید چھڑی بانٹنے کی تقریبات تو صرف اکتوبر میں ہوتی ہیں مگر اس کے ٹوٹنے کے واقعات ہر روز ہوتے ہیں۔ جہاں مہذب ممالک کی پارلیمنٹ اپنے نابینا لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں ۔ وہیں ہماری موجودہ پارلیمنٹ میں ایک منٹ بھی اس حوالے سے بات نہیں ہوتی۔
یہاں سے آپ ہمارے عوامی نمائندوں کی عوام کے ساتھ سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس ملک میں نابینا افراد سے متعلق کوئی قومی پالیسی نہیں اور نہ ہی کوئی ورکنگ پیپرپیش کیا جائے تو اُسے پذیرائی ملتی ہے یہاں تک کہ محکمہ شماریات کے پاس مستند Figures ہی نہیں کہ نابینا افراد کی اصل تعداد کیا ہے۔

تاہم اچھی بات یہ ہے کہ نابینا افراد اپنے نشان سفید چھڑی کی اہمیت منوانے کے لیے متحرک ہیں اور اپنی آواز مختلف ذرائع سے معاشرے تک پہنچا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نابینا افراد اور ان کے نشان سفید چھڑی کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے آگہی کی بھر پور اور منظم تحریک شروع کی جائے جس میں سول سوسائٹی اور میڈیا رضا کارانہ طور پر آگے آکر ہماری مدد کرے۔ یہ تحقیقی رپورٹ آڈیا ٹائمز سروے ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شائع کی گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tareekh Safaid Chari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.