تحریکِ اقبال

علامہ اقبا ہمارے ادب میں وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہد فرد ہیں جنہوں نے اپنے افکار کی گونا گوئی کے باعث اپنے قارئیں کے لیے پل کا کام دیا اور انہیں مشرق و مغرب کی بھی اور قدیم وجدید ہر دور دنیاوٴں کی بھی سیر کراد ی ۔

جمعرات 21 اپریل 2016

Tehreek e Iqbal
رانا زاہد اقبال :
علامہ اقبا ہمارے ادب میں وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہد فرد ہیں جنہوں نے اپنے افکار کی گونا گوئی کے باعث اپنے قارئیں کے لیے پل کا کام دیا اور انہیں مشرق و مغرب کی بھی اور قدیم وجدید ہر دور دنیاوٴں کی بھی سیر کراد ی ۔ ہمارے یہاں کے کسی دوسرے شاعر کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا نہ ان کے دور میں اور نہ ان سے قبل اور پھر جس طرح علامہ صاحب نے اپنے ماحول کو متاثر کیا اور ہماری شعری و ادبی روایات پر جس قدر گہر ی چھاپ لگائی اس سے ان کے کسی غیر ہمدرد ناقد کو بھی انکار نہ ہو گا۔

خصوصاََ اپنے قریبی ماحول یعنی اپنے غلام معاشرے کو جس طرح انہوں نے انقلاب آفرین سوچ سے روشناس کرایا اس کی مثال شائد پوری دنیا کی کسی قوم کی شعری کا وشوں میں نہ مل سکے۔

(جاری ہے)

اسی لیے علامہ اقبال ہماری ملی ، فکری اور ادبی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے ہندی مسلمانوں کو اسلام کے عالمی نظام میں جگہ دینے اور قومیت کے ہندوستانی بت پاش پاش کرنے کا راستہ دکھایا اور ترکِ دنیا کے بجائے تگ وتازِ حیات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔

اقبال کی تحریک کا یہ زاویہ بلاشبہ سیاسی نوعیت کا ہے تاہم اس تحریک کو عوامی پزیرائی اس جہت سے حاصل ہوئی ۔ اقبال کا مردِ مومن اسی فکرکا نمائندہ انسان ہے۔ پھر یہ انسان چونکہ دیناوی آلاشوں میں گھراہوا عقل و وجدان کی کشمکش کے درمیان پیہم ٹھوکریں کھا رہا ہے اس لیے اقبال نے اس کا مقدر کود اس کے ہاتھ میں دے دیا اور زندگی کی تشکیل و تعمیر کے لیے انسانی خودی کو ایک زندہ حقیقت قراد یا چنانچہ برتر مقاصد کی تکمیل کے لیے خودی کا بیدار رہنا ضروری ہے۔

بالفاظِ دیگر اقبال نے مردِ مومن کا جو تصور دیا تھا اس کی تکمیل خودی کی اساس پر ہوئی اور اس کی عملی تعبیر انہیں رسول ﷺ کی ذاتِ صفات میں نظر آئی۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے نفسیاتی محرکات تلاش کرنے کی سعی کی توانہیں احساس ہو اکہ اس قوم نے عقیدت کوتو مضبوطی سے تھام رکھا ہے لیکن اس عقیدے پر عمل کمزور پڑ چکا ہے ۔ قوم اپنی حدود کی پہنچان اور پرکھ سے محروم ہو چکی ہے چنانچہ قومی زندگی میں ناکامی اور محرومی کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا تھا۔

اقبال نے مایوسی اور قنوطیت کی فضا میں مسلمانانِ برصغیر کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس دلایا۔ ان میں ذوقِ عمل اور یقین محکم پیداکرنے کی سعی کی۔ ایک ایسی فضا میں جب ہندوستان میں انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد منظم صورت اختیار کر چکی تھی ۔ اقبال کا مردِ مومن کا تصور بہت مقبول ہوا۔ اقبال کی شاعری میں رومانیت کے نقوش جابجا نظر آتے ہیں اقبال کا تصورِ عشق رومانیت کی خوبصورت ترین تعمیر ہے تاہم ان کے عظیم موضوعات شائستہ اسلوب، عظمتِ تاریخ کا گہرا احساس اور غیر شخصی انداز پیش نظر رکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اقبال کی شاعری کسی لاابالی ذہن کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پسِ پشت سالہا سال کا تفکر، مطالعے کی گہرائی ،علوم جدید کا مطالعہ اوران کا گہرا عالمانہ تجزیہ اپنا اثر و عمل بروئے کار لا رہا ہے ۔

چنانچہ اقبال کے ہاں حرکت وحرارت کے باوجود فکری توازن، استدلالی ٹہراو ار داخلی نظم و ضبط بھی ملتا ہے۔ان سب خصوصیات نے ان تجربے کو گھمبیرتا، تجزیے کی صداقت اور اظہار کو گہرائی عطا کی اور وہ نہ صرف مستقبل پراثر انداز ہوئے بلکہ مستقبل نے بیشتر انہی کے نظریات کی روشی میں اپنی تعبیر کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہ اقبال کے نقطہ نظر کی ترتیب و تدوین میں سماجی اور معاشرتی حالات نے اہم کردارسر انجام دیا اور انہوں نے ادب برائے ادب کے نظریے کو زمانہ تنزل کی ایک ایسی ایجاد قراد دیا ہے جس کا مقصد ہمیں ذوق حیات اور جذبہ عمل سے محروم کر دینا ہے ۔

تاہم اقبال کی شاعری میں فن اور مقصدیت میں کوئی حدِ فاضل موجود نہیں۔ اس لیے کسی مقام پر بھی ان دونوں میں تصادم پیدا کرنے کے بجائے اقبال کی تخلیقات کے حسن واثر میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ پس ادبی زاویے سے اقبال کی تحریک نے مقصد اور فن کی متصادم حدود میں جمالیاتی انضمام پیدا کیا اور شعر کو حیات کی تنقید قراد دینے کی بجائے خود حیات کو تنقید شعر قرار دیا۔

تحریکِ اقبال نے جمودکو حرکت میں اور قنوطیت کو رجائیت میں بدلنے کی کوشش کی اور اس کے لیے فلسفہ ، نفسیات اور تاریخ کی محرک قوت کے طور پر استعمال کیا ۔ چنانچہ ان کو سابقہ ادبی تحریکوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ ان کے زمانے میں فلسفہ اور سائنس ترقی کے انتہائی مدارج تیزی سے طے کر رہے تھے اکنافِ عالم کی حدود سمٹ کر ایک نقطے میں سما رہی تھیں۔

رسل ورسائل اور ذرائع نقل و حمل کی متعدد ایجادات نے دنیا بھر کے انسانوں کا آپس میں میل جول نہایت آسان بنا دیا تھا ۔ چنانچہ اقبال کو نہ صرف جدید علوم سے استفادہ کا موقع ملا بلکہ عربی ، فارسی ، انگریزی اور جرمنی کے فکری ماخذات تک براہِ راست رسائی حاصل ہوئی اور یوں انہوں نے ذہن و فکر کے آزاد عمل سے ان صداقتوں کو تلاش کیا جو بنیادی طور پر مشرق کی مزاج سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور جن کی عالم گیریت مسلم ہے ۔ بالفاظِ دیگر اقبال وہ نقطہ اتصال ہے جہاں مشرق و مغرب کی فکری روئیں آپس میں مدغم ہو کر ایک نئی معنویت میں ڈھل جاتی ہیں اقبال کی تحریک اسی نئی معنویت سے عبارت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tehreek e Iqbal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.