اُستادوں کا اُستاد

میں نے اُسے زہر بھر انجکشن لگایامگر کچھ اثر نہ ہوا کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ، باہر پولیس کھڑی تھی

منگل 25 اکتوبر 2016

Ustadon Ke Ustad
تسنیم حامد صدیقی :
موجودہ دور خود غرضی کا دور ہے ۔ آج کل ہر کوئی خود کو بہت بڑا فنکار تصور کرتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے مد مقابل بے وقوف آدمی ہے جس کو میں باآسانی بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرلونگا ۔ اور اس میں کون استادوں کا استاد ہوتا ہے۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا ۔ یہ بھی ایسے ہی ایک شخص کی کہانی ہے جو میرے ایک دوست کے قریبی عزیزہیں۔

اور آج کل جعلی کرنسی رکھنے کے جرم میں کراچی کی لانڈھی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ میں جب اپنے دوست سے ملنے گیا تو اسکے ساتھ لانڈھی جیل میں ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا نام احمد یارخان ہے۔ یہ کہانی میں انکی زبانی لفظ یہ لفظ تحریر کررہا ہوں۔ میں نے ماسٹر سیاست میں کیاتھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود لاہور جیسے شہر میں ملازمت نہ ملی۔

(جاری ہے)

تو دوستوں سے قرض لیکر کراچی آگیا۔

مگر اس انجانے شہر میں نہ تو میری کوئی دوستی تھی اور نہ ہی کوئی سفارش ۔ پیسے بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہے تھے کہ میں ریسٹورنٹ میں کھانا کھارہا تھا۔ ایک سمارٹ سا آدمی میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی شکل مجھ سے کافی ملتی تھی فرق یہ تھا کہ وہ کافی باوقاراور صاحب ثروت لگتا تھا ۔
جلد ہی ہم بے تکلف دوست بن گئے۔

وہ مجھے اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر لے گیا۔ یہ ایک عمدہ فلیٹ تھا جو اس نے فیصل آباد سے آکر خریداتھا ۔ جب اسکو میرے بارے میں علم ہو کہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور میں نے سیاست میں ماسٹر کی اہواتو اس نے بتایا کہ مجھے بھی ایک پارٹنر کی تلاش تھی کیونکہ جو میں کاروبار کرتا ہوں وہ بہت اہم ہے اور لاکھوں کالین دین کرنا پڑتا ہے۔ سب کام میں اکیلا نہیں کرسکتا لیکن تم نے میرے سے یہ نہیں پوچھنا کہ میں کیاکرتا ہوں تمہیں صرف آم کھانے سے مطلب رکھنا ہے۔

اور دوسری شرط یہ ہے کہ جب میں باہر جاؤنگا تو تم نے فلیٹ سے باہر نہیں جانااور جب میں باہر سے آؤنگا تم نتے لین دین کرنا ہے۔ چند مہینوں کے دوران اس نے ہر طرح سے آزمائش کرلی۔ تب ایک دن اس نے مجھے ایک بریف کیس میں نوٹ ڈال کردئیے اور کہا کہ تم نے اس پتے پردے کر آنا ہے۔ اسکے بدلے تم کوایک اور بریف کیس دے گا وہ تم لیکر آجانا۔ میں نے یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

بہت جلد میرے حالات بھی ٹھیک ہوگئے اور میں نے اپنی خالہ زاد منگیتر کو یہ خوش خبری دی کیونکہ میری بچپن میں منگنی اسی کزن سے ہوچکی تھی ، لیکن جب مجھے لاہور میں ملازمت نہ ملی تو خالہ نے مجھے مہلت دی کہ تم کراچی جا کر نوکری تلاش کرنے کی کوشش کرو ورنہ مجھے مجبوراََ یہ منگنی توڑنی پڑے گی ۔ اور شاہدہ کی شادی کسی دوسری جگہ کرنی پڑے گی۔ میرے حالات دن بہ دن اچھے ہوتے چلے گئے اور رقم لیکر جاتا اور رقم ہی لیکر واپس آتا۔

وہ رات گئے جاتا اور صبح کوبریف کیس نوٹوں سے بھرلاتا اور یہ ٹوٹ میں اس کے بتائے آدمی کو دیکر آتا۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اتفاق کی بات ہے ایک روز جاتے ہوئے وہ لاکر زجلدی میں بندکرنا بھول گیااور میری آنکھیں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں کہ بڑے بڑے نوٹوں کی صورت کروڑوں روپے کے نئے نئے بنڈل اس میں محفوظ تھے ۔ وہ جلدی سے واپس آیا اور بولا ، سوری یار میں سیف بندکرنا بھول گیا تھا۔

میں نے اسکو بالکل شک نہیں ہونے دیا کہ میں نے کرنسی نوٹ دیکھ لیے ہیں اورمیں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ اسکو راستے سے ہٹانے کا، اس طرح میں ساری دولت کا اکیلا مالک بن جاتا ۔ میں یہ بھول گیا کہ وہ خود بہت بڑا فنکار ہے ۔ اور خود مجھے اپنے جال میں اچھی طرح جکڑ چکا ہے۔ ایک بار میں نے اسکو حسب معمول رات کو دودھ دیتے ہوئے اس میں زہر ڈال دیا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا، اور دوسری مرتبہ زہر کا ٹیکہ خرید کر لایااور سوتے ہوئے لگادیا مگر اس پر بھی اسے کوئی اثر نہ ہوا۔


پھرایک رات وہ پریشانی کے عالم میںآ یااور کہنے لگا کہ اسکو فیصل آباد سے فون آیا ہے ۔ اسکی بیگم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ کومے کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہے ۔ میں فوراََ دفیصل آباد جا رہاہوں۔ میں بہت خوش ہوا کہ میں ساری دولت کا اکیلا مالک ہونگا۔ اس نے یہ شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اتفاق کی بات ہہ تھی کہ وہ سیف کی چابی بھول گیا تھا۔

میں نے سیف کھولا تو بہت سے نوٹوں کی گڈیاں موجود تھیں۔ میں جلدی جلدی بریف کیس میں نوٹ بھرنے لگا، اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی آدمی تھا جسکو میں کرنسی دیکر آتا تھا۔ پولیس افسر بولا، ماسٹر احمد خان صاحب آپ کو جعلی کرنسی رکھنے کے جرم میں گرفتار کیاجاتا ہے۔ لیکن سے میں بے گناہوں، میں نے التجا کی۔ اسکا فیصلہ عدالت کرے گی۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا تو میرا پارٹنر تھا،وہ بولا ، ہیلو مسٹر ، تم نے مجھے دوبار مارنے کی کوشش کی۔

پہلی بارتمہیں دودھ میں زہر ڈالتے ہوئے میں نے دیکھ لیا تھا اور وہ دودھ میں نے ضائع کردیا تھا۔ دوسری بار تم نے زہر کاٹیکہ تیار کیا اور اسے رکھ کر سوگئے ۔ میں نے اسکی جگہ نیند کا انجکشن رکھ دیا۔ کیونکہ اگر تم استاد ہوتو میں استادوں کا استاد اور میرا کاروبار یہ ہے کہ میں اصلی نوٹوں کے بدلے آدھی رقم لیکر ڈبل رقم دیتا ہوں۔ اورپھر جب میں اس کام کے لیے قابل اعتبار آدمی تلاش کرلوں توا سے کھلونے کے طور پر استعمال کرتا ہوں، اب بھی میں نے یہی کہا ہے ۔

اب میں کسی دوسرے شہر جا کر تم جیسے آدمی کی تلاش کرونگا خدا حافظ ۔ ماڑی کی پولیس تمہارا انتظار کررہی ہے ۔
اور مجھے عدالت سے دس سال کی قید ہوئی اور میری منگیترکی شادی بھی ہوچکی ہے ۔ میں اپنی لالچ کی سزا کاٹ رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین ثم آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ustadon Ke Ustad is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.