ضرب عضب

کامیابی اور عالمی برادری کی ذمہ داری گزشتہ دہائی میں تمام دنیا کی طرح پاکستان بھی دہشتگردی سے سب سے زیادہ بلکہ براہ راست متاثر رہا ہے۔ پاکستان کے کچھ قبائلی علاقے دہشتگردوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ ہمارا قبائلی علاقہ سات اضلاع یا ایجنسیوں پر مشتمل ہے۔ ان علاقوں میں دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے سب سے پہلا آرمی آپریشن 2002 میں کیا گیا۔ اسکے بعد بھی مختلف فوجی آپریشن کیے گئے جن میں آپریشن راہ حق، آپریشن راہ راست اور آپریشن شیر دل شامل ہیں

جمعرات 8 ستمبر 2016

Zarb e Azb
ڈاکٹر احمد سلیم:
گزشتہ دہائی میں تمام دنیا کی طرح پاکستان بھی دہشتگردی سے سب سے زیادہ بلکہ براہ راست متاثر رہا ہے۔ پاکستان کے کچھ قبائلی علاقے دہشتگردوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ ہمارا قبائلی علاقہ سات اضلاع یا ایجنسیوں پر مشتمل ہے۔ ان علاقوں میں دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے سب سے پہلا آرمی آپریشن 2002 میں کیا گیا۔ اسکے بعد بھی مختلف فوجی آپریشن کیے گئے جن میں آپریشن راہ حق، آپریشن راہ راست اور آپریشن شیر دل شامل ہیں۔

2009میں جنوبی وزیرستان میں آرمی آپریشن ” راہ نجات“ کیا گیا۔ ان آپریشنز نے دہشتگردوں کو بڑا اور قابل ذکر نقصان تو پہنچایا لیکن دہشتگردوں کیخلاف مکمل اور مطلوبہ کامیابی نہ مل سکی۔ دیگر کچھ وجوہات کے علاوہ اسکی ایک بڑی وجہ شمالی وزیرستان کے علاقے میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی تھیں۔

(جاری ہے)

فوجی آپریشن کے دوران دوسرے علاقوں سے دہشتگرد شمالی وزیرستان فرار ہو جاتے تھے۔

شمالی وزیرستان، پاک افغان سرحد پر نہایت دشوار گزار علاقہ ہے جس سے ملحقہ ِ افغان علاقے پر بھی عملی طور پر دہشتگردوں کا کنٹرول ہے۔ بارڈر کے اس پار افغان علاقے میں بھارتی ایجنسی RAW کا بھی بہت اثر رسوخ ہے۔ ان عوامل کی بنا پر یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ منظم اور شدید حملے کیے جاتے رہے ہیں اور اسی لیے شمالی وزیرستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی ضرورت روز اول سے محسوس کی جاتی رہی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پرگزشتہ فوجی قیادت اور سولین حکومت نے اس علاقے میں فوجی آپریشن کو التوا میں رکھا۔

شروع میں موجودہ حکومت بھی اس سلسلے میں دیگر عوامل کے علاوہ کچھ سیاسی قوتوں کے دباؤ میں رہی۔ ان میں سب سے اہم جماعت اسلامی ، عمران خان، مولانا فضل الرحمان تھے جو فوجی آپریشن کیخلاف تھے۔ اس غیر ضروری التوا نے نہ صرف ان دہشتگردوں کے حوصلے بلند کئے بلکہ ان میں ” اسلامک موومنٹ آف ازبکستان“ ” چیچین اسلامی جہاد یونین“ ” ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ“ سے تعلق رکھنے والے اور دنیا کے کئی علاقوں سے آئے ہوئے دہشتگرد شامل ہو تے گئے۔

اس سب کے باوجود حکومت پاکستان نے آخری وقت تک ان دہشتگردوں سے مذاکرات کی کوشش جاری رکھی۔ ” تحریک طالبان پاکستان“ نے بظاہر مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی اور اسکی آڑ میں حکومت سے ” سیز فائر“ کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن اس سیز فائر اور مذاکرات کے دوران بھی پاکستان پر دہشتگردوں کے حملے جاری رہے۔ اس دوران کچھ ایسے بڑے واقعات بھی ہوئے جنہوں نے حکومت پاکستان کو مذاکرات کی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔


2013میں تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں ”جنرل ثنا اللہ نیازی“ اور اسکے بعد فروری 2014 میں FC کے 23 جوانوں کی شہادت اور جون 2014میں تحریک طالبان پاکستان میں شامل دہشتگردوں کے ایک گروہ ” اسلامک موومنٹ آف ازبکستان“ کی جانب سے کراچی ائیرپورٹ کے جناح ٹرینل پر حملہ (جس میں عملے کے 28 ارکان شہید ہوئے) ایسے واقعات تھے جنہوں نے حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کو اس بات کا یقین دلا دیا کہ ان دہشتگردوں کو مذاکرات کے ذریعے انسانیت کی راہ پر لانے کی خواہش لا حاصل ہی رہے گی۔

اور آخرکار 15 جون 2014کو پاک فوج کے تیس ہزار جوانوں نے کمانڈوز اور فضائیہ کی مدد سے شمالی وزیرستان میں باقاعدہ فوجی آپریشن کا آغاز کیا جسے ” ضرب عضب“ کا نام دیا گیا۔
اس آپریشن کے دوران پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھی قربانیوں کی عظیم داستان رقم کی۔ 2نومبر 2014کو واہگہ بارڈر پر ایک خودکش حملے میں 55 شہری شہید ہو گئے۔

آرمی پبلک سکول پر بزدلانہ حملے کا سانحہ بھی تا قیامت بھلایا نہیں جا سکتا جس میں کے 9 ارکان کیساتھ 132 معصوم بچے بیدردی کیساتھ شہید اور 121 معصوم پھول زخمی کر دیے گئے۔ اس سانحہ عظیم کے بعد عمران خان سمیت پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی کہ یہ کوئی علاقائی جھگڑا نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے بچوں کی بقا کی جنگ ہے اور آج تمام پاکستان دہشتگردوں کیخلاف اس آپریشن کے حق میں یک آواز ہے۔

مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی بھی اب اس آپریشن کی مخالفت نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے اور گزشتہ دنوں اس آپریشن کے آخری حصے میں ” واددی شوال“ کو دہشتگردوں سے پاک کر کے پاک افغان سرحد پر پاکستان کی آخری چوکی پر بھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ اس کامیاب آپریشن کے دوران ہزاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کے علاوہ ہزاروں ٹن بگولہ بارود اور بیشمار اسلحہ کے علاوہ دہشتگردوں کے رسد و رسائل اور مواصلات کے نیٹ ورک کو تباہ کیا گیا۔

”ساؤتھ ایشئین ٹیریرزم پورٹل“ کے مطابق 2008میں 1116سولین دہشتگردی کا نشانہ بن کر شہید ہوئے اسکے مقابلے میں 2105 میں صرف 35 سولین شہید ہوئے۔ 2014 اور 2015 میں 2866دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان میں سکون اور دہشتگردی میں ہونیوالی خاطر خواہ کمی اس آپریشن کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان کامیابیوں کے باوجود پاک افغان سرحد کے اس پار افغان علاقے میں اب بھی دہشتگردوں کی تربیت گاہیں اور پناہ گاہیں موجود ہیں اور فوجی آپریشن کے دوران بہت سے دہشتگرد افغان علاقے میں فرار ہو گئے۔

ان میں سب سے اہم مولانا فضل اللہ ہے۔ پاکستان حکومت کی جانب سے بار بار مطالبہ کیے جانے کے باوجود افغان حکومت نے آپریشن کے آغاز سے آج تک نہ تو پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش کی اور نہ ہی کبھی افغان علاقے (خاص طور پر ”نورستان“ اور ”کنار“) میں دہشتگردوں کے خلاف کوئی سنجیدہ ٹھوس اقدامات کئے۔
اس آپریشن کے دوران تقریباََ آٹھ لاکھ افراد نے اپنے گھروں سے نقل مکانی کی اور انکے گھروں اور تعمیرات کو شدید نقصان پہنچا۔

ان IDPs کی بحالی اور علاقے کی تعمیر نو کیلئے تقریباََ 300ملین ڈالر درکار ہونگے جس کا بوجھ پاکستانی معیشت کیلئے اکیلے اٹھانا آسان نہیں۔ علاوہ ازیں آرمی آپریشن کے بعد حکومت سمیت پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو مل کر ایک ” سولین آپریشن“ کرنا ہوگا کیونکہ شمالی وزیرستان کے عوام کی قربانیوں کے بعد اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی بحالی کیلئے آخری حد تک جائیں۔

اگر علاقے کی نارمل زندگی جلد از جلد بحال نہ کی جا سکی تو کچھ منفی قوتیں اس بات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی اور فوجی میدان میں جیتی ہوئی جنگ کے تمام تر ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ اس سب کیلئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی عالمی برادری پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ افغان حکومت کو مجبور کرے کہ شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کیلئے سنجیدہ اور سخت اقدامات کئے جائیں۔ اس آپریشن کی کامیابیوں ڑ سے اس وقت تک مکمل فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جب تک عالمی برادری بشمول افغانستان اور خاص طور پر امریکہ پاکستان پر الزام تراشی اور ”ڈو مور“ کا غیر منطقی مطالبہ کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zarb e Azb is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.