قومی اسمبلی، قائد حزب اختلاف کی طرف سے حکومتی رویئے کو غیر پارلیمانی قرار دینے کے جواب میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کے بیان پر اپوزیشن ارکان کا شدید احتجاج، ایوان سے واک آؤٹ

جمعرات 13 اگست 2015 15:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وزراء کی عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیا، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی طرف سے حکومتی رویئے کو غیر پارلیمانی قرار دینے کے جواب میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کے بیان پر اپوزیشن ارکان احتجاجا ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ اپوزیشن کی ایوان میں عدم موجودگی کے دوران ہی سٹیٹ بینک (ترمیمی بل) 2015ء منظور کرلیا ، وزراء کے منانے کے باوجود اپوزیشن ایوان میں واپس نہ آئی جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیا۔

اس سے قبل جب پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2015ء پیش کیا تو قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وزراء ایوان میں موجود نہیں صرف ایک وفاقی وزیر اور وزیر مملکت موجود ہیں کبھی حکومت نے سوچا ہے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے پہلے تحریک انصاف کے اور اب ایم کیو ایم کے استعفے آئے ہیں، حکومت کارویہ غیر پارلیمانی ہے جس کی بجائے لوگ سڑکوں پر آرہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آواز پارلیمنٹ میں نہیں اٹھائی جاتی انہوں نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں وزیراعظم بھی ایوان میں موجود ہوتے تھے اور وزراء بھی اور ارکان بھی بڑی تعداد میں ہوتے تھے لیکن آج کیا صورتحال ہے، کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کسی کو دلچسپی نہیں ہے اگر اپوزیشن واک آؤٹ کر جائے تو حکومت کیسے بل پاس کرا سکے گی یہاں ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن کیا یہ رویئے درست ہیں ؟۔

(جاری ہے)

ہمارے دور میں جب بل آتے تھے تو ہم اپوزیشن سے مشاورت کرتے تھے یہ بہت اہم بل ہے، سٹیٹ بینک کو خود مختاری دی جارہی ہے، یہ اچھا بل ہے مگر ایوان میں حکومتی ارکان نہیں اور نہ ہی وزراء ہیں ، حکمران پارلیمنٹ کو اہمیت دیں اور اپنے ایم این ایز کے مسائل کو سن لیں،

ارکان یہ سمجھتے ہیں کہ وزراء ایوان میں نہیں آتے تو ہم کیوں جائیں پھر کس طریقے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، اس کے جواب میں وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کھڑے ہوگئے اور کہا کہ میں ریکارڈ درست کرنے کیلئے یہ کہہ رہا ہوں کہ اس دور میں بھی صرف خورشید شاہ ایوان میں موجود ہوتے تھے جو سب کے جواب دیتے تھے ہم انہیں امرت دہارہ اور گھنٹہ گھر کہتے تھے۔

وزیراعظم اکیلے ایوان میں بیٹھے ہوتے تھے اور ان کے پیچھے ہم جا کر بیٹھتے تھے مجھے پتا ہے کہ سیاسی تقریر کرنا بڑا آسان ہے، نوید قمر سوئے ہوئے ہوتے تھے، انہوں نے کہا کہ اگر خورشید شاہ تین ، چار لوگوں کو ہی وزراء سمجھتے ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں، خورشید شاہ ایسا نہ کریں اس طرح کے ریمارکس دینا کہ مسلم لیگ ن دلچسپی نہیں رکھتی گزشتہ پانچ سال کی پیپلز پارٹی کی حاضری اور ہماری دو سال کی حاضری کا ریکارڈ دیکھ لیں سب کچھ واضح ہو جائیگا، وفاقی وزیر کے اس جواب پر خورشید شاہ غصے میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ گزشتہ پانچ سال کی حاضریاں نکال کر ایوان میں پیش کی جائیں اگر حکومت کا یہ رویہ ہے تو ہم بھی اپوزیشن چلائینگے ، وزیر کا یہ کوئی بات کرنے کا طریقہ نہیں ہے ، ہمارے دور حکومت میں جب ان کے لیڈر آف دی اپوزیشن بات کرتے تھے تو ہم اسے سنتے تھے ہم وفاقی وزیر کے اس رویئے کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، فاٹا اور دیگر جماعتوں کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے ۔

ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے وفاقی وزراء ریاض حسین پیرزادہ، آفتاب شیخ ، زاہد حامد کو اپوزیشن کو منانے کیلئے لابی میں بھیجا اس دوران رانا تنویر بھی لابی میں گئے لیکن اپوزیشن ارکان کا رویہ دیکھ کر واپس ایوان میں آگئے، مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ ہمارے رانا صاحب کا سخت رویہ ہے، اپوزیشن کی ایوان میں عدم موجودگی کے دوران ہی بل کو رائے شماری کیلئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دیدی بل کی منظوری کے بعد آفتاب شیخ نے ڈپٹی سپیکر کو بتایا کہ اپوزیشن کو منانے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں لہذا اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا جائے جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بارے میں صدر ممنون حسین کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں