پاکستان طویل مدت سے حالت جنگ میں ہے ‘دہشتگردی کیخلاف جنگ کامیابی کے حصول تک جاری رہے گی ‘ صدر مملکت

جمعہ 14 اگست 2015 14:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 اگست۔2015ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان طویل مدت سے حالت جنگ میں ہے ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ کامیابی کے حصول تک جاری رہے گی ‘ پوری قوم یک جان ہو کر دہشت گرد ی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی حکومت اور افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے ‘شدت پسندپسپا ہو رہے ہیں ‘ انشاء اللہ بہت تھوڑی مدت میں ہم ان مسائل پر قابو پا لیں گے ‘ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل چاہتے ہیں ‘ پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم ا پنی سلامتی اور دفاع پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ‘ پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن ہے ہمیں کھلی آنکھوں اوربیدارمغزکے ساتھ بد عنوان عناصر کو لگام دینا ہوگی ‘ وقت آگیا ہے مستقبل میں سیلاب اور نقصانات سے بچنے کیلئے مستقل نوعیت کے اقدامات کیے جائیں ‘ہمارا آئندہ جشن آزادی آج کے جشنِ آزادی سے زیادہ بہتر اور زیادہ شاندار ہوگا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو کنونشن سینٹرکایوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہاکہ پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر قومی پرچم کو وطنِ عزیز کی مقدس فضاؤں میں لہراتادیکھ کراپنے جلیل القدربزرگوں اور بانیانِ پاکستان کی قربانیوں کی یاد میرے ذہن میں تازہ ہو گئی ہے جنہوں نے تاریخ کی عدیم النظیرتحریک چلا کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکا میرے ذہن میں سرسید احمد خان کی تصویر ابھرتی ہے جنہوں نے جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے برصغیر میں جدید تعلیم کی شمع روشن کر کے نئے عہد کی بنیاد رکھی ۔

مشرق کے عظیم فلسفی اور شاعر علامہ محمد اقبال کے افکار کی خوشبو محسوس ہو تی ہے جنہوں نے خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم وطن کاخواب دیکھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے منظر ابھرتے ہیں جنہوں نے غلامی اورجبر کی طاقتوں کا مقابلہ خالص جمہوری انداز میں کر کے تاریخ کی کایا پلٹ دی۔ آج کا دن ہمیں دیگر بانیانِ پاکستان علی برادران، قائدِ ملت لیاقت علی خاں، نواب سلیم اللہ خاں، مولوی فضل الحق سمیت دیگر بزرگوں کی قربانیوں، جدوجہد اور عظیم افکار کی یاد دلاتا ہے اوراِس عہد کی تجدید کا مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اِن بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمیں اپنے عظیم وطن کی خدمت کرنی ہے اور اس کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھناہے۔

انہوں نے کہاکہ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں قوم کا جوش و جذبہ کیا تھا؟ اس کا اندازہ اُن خطوط سے ہوتا ہے جواُس زمانے میں بچوں نے قائد اعظم کو لکھے۔ میں آپ کو ان بے شمار خطوط میں سے صرف تین خط سنانا چاہتا ہوں۔ یہ خطوط تاریخ کا ایک دلچسپ اور شاندار باب ہیں۔ کہنے کو تو یہ بچوں کی معصومانہ باتیں ہیں تاہم بچوں کی باتیں دراصل اُن کے والدین اور خاندان کے بزرگوں کے خیالات اور فکر ہی کی عکاس ہوتی ہیں ۔

ان خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمان کس انداز میں سوچ رہے تھے۔صدر نے پہلے خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ” یہ خط صوبہ بہار کے چھوٹے سے علاقے بانکی پور، راما،ضلع پٹنہ سے 22/ اپریل 1942ء کو مسلم ایچ ای اسکول کے نویں جماعت کے طالب علم محمد محفوظ عالم نے قائد اعظم کو ارسال کیا خط میں کہا گیا کہ مہربانی کر کے مسلم قومی سرمایہ میں میری یہ چھوٹی سی کاوش قبول فرمائیں۔

میں بہت ہی محدود وسائل کا حامل درسگاہ کا ایک طالب علم ہوں مگر میں اپنی محدود آمدنی کو اپنے فرض کے درمیان آنے کی اجازت نہیں دوں گا جو کہ مسلمانانِ ہنداور آپ کی تابعداری کی وجہ سے مجھ پر عائد ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہرمہینے سات دن تک بغیر ناشتے کے مدرسے جاؤں گا اور اس طرح جو رقم بچے گی وہ آپ کو بھیجوں گا۔ برائے مہربانی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس امتحان میں کامیاب کرے“۔

وسرے خط کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہاکہ یہ خط ملتان سے نویں جماعت کے ایک طالب علم سعید اختر نے 17 جون 1942ء کو قائد اعظم کو ارسال کیا۔خط میں کہا گیا کہ آپ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے قومی فنڈ کے لیے آٹھ آنے کا پوسٹل آرڈر نمبر A034272 بھیج رہا ہوں ۔ یہ میں نے اپنے جیب خرچ میں سے جمع کیا ہے۔ امید ہے آپ میری حقیر رقم قبول فرمائیں گے ۔ تیسرے خط کا ذکرتے ہوئے بتایا کہ یہ خط پانچویں جماعت کے ایک طالب علم عزیز الرحمن نے ۲۹/ فروری ۱۹۴۲ء کو امرتسر سے قائد اعظم کو تحریر کیا ۔

خط کے مطابق بعد آداب غلامانہ عرض ہے کہ پھوپھا جان بیس دن ہوئے، دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناح صاحب نے مسلمانوں کے کام ] کے[ واسطے ہر ایک مسلمان سے چند ہ مانگا ہے۔ آگے نہیں مانگا تھا۔ بابا جی صاحب مجھ غلام کو جو پیسہ ملتا ہے میں نے اکٹھا کر لیا ہے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہو گئے ہیں ۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کر کے بھیجے ہیں ۔

خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ اگر یہ آٹھ آنے آپ کو مل گئے اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں اور جب بڑا ہوں گا اور بھی بہت زیادہ روپے بھیجوں گا ۔خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آج ہمیں ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے وطن کی تعمیرِ نو اپنے بزرگوں کے خوابوں کے مطابق کرسکیں۔

خط کے مطابق آج جب ہم پاکستان کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اِن میں سے بیشتر مسائل کی وجہ تعلیم کا انحطاط ہے۔تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا رشتہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں سرسید کے جذبے کے تحت جدید تعلیم کو فروغ دینا ہے۔صدر نے کہاکہ پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن ہے جس کے نتیجے میں ہماری معیشت اور انتظامی ڈھانچہ شکست وریخت کا شکار ہوا۔

ہمیں کھلی آنکھوں اوربیدارمغزکے ساتھ بد عنوان عناصر کو لگام دینی ہے ۔انہوں نے کہاکہ معاشی عدم استحکام بھی وطنِ عزیز کے لیے غیر معمولی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت بڑی تن دہی سے کام کر رہی ہے ۔ اس مقصد کے لیے چین کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی اقتصادی راہداری اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے کے تمام ممالک کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی۔

اس لیے میں قوم سے کہا کرتا ہوں کہ وہ راہداری کی بروقت تکمیل کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر دے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ منفی اور تخریبی عناصر کا طرزِ عمل ہے جنھوں نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی ناپاک کوششیں کی ۔یہ لوگ آئین اور جمہوریت کے بارے میں بھی منفی طرزِعمل اختیار کرتے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے قوم باشعور ہے جس نے ایسے لوگوں کی ہر کوشش ناکام بنا کر ملک کو نظریاتی، سیاسی، اقتصادی اور ہر اعتبار سے مستحکم کرنے کا عزم کر رکھا ہے ۔

صدر نے کہاکہ پاکستان ایک طویل مدت سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک طرف شدت پسندوں نے ریاست کوچیلنج کر رکھا ہے تو دوسری طرف سماج دشمن عناصر اور غیر ملکی مفاد کے لیے کام کرنے والوں نے ملک کے بعض حصوں کاامن و امان بگاڑ دیا۔ حکومت ِ پاکستان نے بھرپور سیاسی عزم کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کارروائی کامیابی کے حصول تک جاری رہے گی۔

اس جنگ میں ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں یہاں تک کہ اسکولوں کے معصوم بچوں نے بھی اپنی جانیں قربان کی ہیں جن میں سب سے تکلیف دہ واقعہ آرمی پبلک اسکول کا ہے جو بے رحم دہشت گردوں کانشانہ بنا۔ ان قربانیوں کے لیے قوم ان کی احسان مندہے اور اپنے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔ یہ امر بھی باعثِ اطمینان ہے کہ پوری قوم یک جان ہو کر دہشت گرد ی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی حکومت اور افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے اور شدت پسندپسپا ہو رہے ہیں ۔

میں آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ انشاء اللہ بہت تھوڑی مدت میں ہم ان مسائل پر قابو پا لیں گے۔صدر نے کہاکہ حکومت نے سیاسی و جمہوری استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے، سیاست کی بنیاد پر قومی مفادکے معاملات پر اختلاف کا رحجان دم توڑ رہاہے اور قوم ہر اعتبار سے متحد اوریک جان ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ، اُن میں سب سے اہم کامیابی یہی ہے۔

مجھے اللہ کی رحمت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران ان معاملات میں مزید بہتری آئے گی اور ہر آنے والا دن پاکستان کے لیے استحکام اور طاقت کی نوید لائے گا۔انہوں نے کہاکہ خارجہ تعلقات کے شعبے میں بھی پاکستان نے حال ہی میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔وہ زمانہ ماضی کا حصہ بن چکاہے جب پاکستان تنہائی کا شکار تھا اب اللہ کے فضل و کرم سے عالمی برادری میں پاکستان کوپذیرائی مل رہی ہے۔

اقوامِ عالم میں پاکستان کو یہ مقام اس کی جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی سے ملا ہے جس کا مرکزی نکتہ دنیا کے تمام ملکوں بالخصوص ہمسایہ ممالک سے خوش گوار اور دوستانہ تعلقات کافروغ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ بھی کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہوجائیں۔ حال ہی میں مشرقی سرحدوں پر بعض ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان پرُامن بقائے باہمی کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا حامی ہے لیکن اگر پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم ا پنی سلامتی اور دفاع پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں