2018 میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی 660 میگا واٹ کمرشل پیداوار شروع ہوجائی گی چیف ایگزیکٹو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی

ہ سندھ کے تھر صحرا میں کوئلے کے ساتھویں بڑے ذخائر ہیں جن کا حجم 175 بلین ٹن ہے شمس الدین احمد شیخ پاکستانی بینکوں کے ساتھ فنانسنگ کے معا ہدوں پر 17 اگست کو کراچی میں ایک خصوصی تقریب میں دستخط ہوں گے انٹرویو

اتوار 16 اگست 2015 15:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 16 اگست۔2015ء ) سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسرشمس الدین احمد شیخ نے کہاہے کہ 2018 میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی 660 میگا واٹ کمرشل پیداوار شروع ہوجائی گی۔ صوبہ سندھ کے تھر صحرا میں کوئلے کے ساتھویں بڑے ذخائر ہیں جن کا حجم 175 بلین ٹن ہے۔ ایس ای سی ایم سی کو تھر بلاک ٹو مختص کیا گیا ہے جس میں ر ڈبلیو ای جرمنی کے مطابق 1.57 بلین لگنائٹ موجود ہے۔

اکیلا تھر بلاک ٹو پچاس سال تک پانچ ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کرسکتا ہے۔ شمس الدین احمد شیخ نے کہا کہ تھر کوئلہ فیلڈز کا موازنہ دنیا کے اوپن پٹ مائنز سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں راکھ کم ہوتی ہے اور حرارت زیادہ درکار ہوتی ہے کو ئلے کا سٹرپپنگ تناسب مائننگ آپریشن کے لیے بہت مناسب ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 16 اگست۔

2015ء سے خصوصی بات چیت کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ تھرلگنائٹ نہ صرف پاور پلانٹ میں فورا استعمال ہوسکتا ہے بلکہ دور دراس کے پاور پروجیکٹس تک ٹرانسفر یا منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بھارت چین اور جرمنی میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آرڈبلیو ای جرمنی کی ایک سٹڈ ی کے مطابق تھر لگنائٹ کو با حفاظت دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ شمس الدین احمد شیخ نے تھر کوئلے کی کان کنی اور پاور جنریشن کے سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون اور کردار کو سراہا۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے اینگرو پاور جنریشن لمیٹڈ تھر اور ایس ای سی ایم سی کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کے اقدام کی بھی تائید کی۔انہوں نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بدولت چینی سرمایہ کاری کے ذریے 2021 تک قوم گرڈ میں 16000 میگا واٹ بجلی شامل ہوجائی گی۔ جس سے پاکستان میں جاری توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی. انہوں نے کہا کہ توانائی کے سولہ اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کے پانچ منصوبے ارلی ہارویسٹنگ پروجیکٹ میں چنے گئے ہیں۔

اننہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی غیر مشروط حمایت اور تعاون ہی اس منصوبے کے مقررہ مدت میں مکمل ہونے کی وجہ ہے اس ضمن میں کافی کام ہوچکا ہے اور ایس ای سی ایم سی سال 2014 کے چوتھے سہ ماہی میں منصوبے کی فنانشل کلوزنگ کردے گی۔انہوں نے سی ایس آر کے حوالے سے کہا کہ تھر کے لوگوں کے لیے دوبارہ آبادکاری، زمین کی خرید کے لیے منصوبے کے کل اخراجات کا 10 فیصد اور منصوبے کے منافے کا دو فیصد حصہ سی ایس آر کی مد میں خرچ کیا جائے گا جس کے لیے سٹیزن فاوٴنڈیشن کے ساتھ ایک معا ہدہ طے پا چکا ہے جس کے تحت 148.5 ملین روپے سے اسکول یونٹ تھر پارکر میں قائم کئے جائیں گے اورپینے کا صاف پانی اور صحت عامہ کے منصوبوں پر بھی خاص توجہ دی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے منصوے پر کام کرنے والوں کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس مقصد کے لیئے خطیررقم مختص کی گئی ہے ۔شمس الدین شیخ نے کہا کہ پاکستانی بینکوں کے ساتھ فنانسنگ کے معا ہدوں پر 17 اگست کو کراچی میں ایک خصوصی تقریب میں دستخط ہوں گے ایک سوال کے جواب میں شمس الدین شیخ نے کیا کہ کان کنی میی شروع میں بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے مگر اس کو توسیع دینا آسان ہوتا ہے تھر میں کوئلہ 130میٹر گہرائی میں ہے پھر 30 میٹر کوئلے کی تہہ ہے انہوں نے بتایا کہ بجلی کی فراہمی کے لئے تھر مٹیاری ٹرانسمشن لائن استعمال ہو گی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کیا کہ تھر پسماندہ ترین علاقہ ہے وہاں جائیں تو لگتا ہے کہ دو تین سال پیچھے چلے گئے ہیں تھر میں گزشتہ دس سالوں میں سات مرتبہ خشک سالی آچکی ہے ہم ایک تھر فاوٴنڈیشن بنا رہے ہیں تھر ایک پر امن علاقہ ہے جس کی آبادی 16 لاکھ ہے وہاں مسلمان اور ہندو مل کر عید اور ہولی مناتے ہیں ہم اس علاقے میں صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیپرا نے یورپ سے بوائلر لانے کی اجازت دے دی ہے ماحولیات کے حوالے سے اس پراجیکٹ کے سٹینڈرڈ ورلڈ بنک کے مطابق ہیں ایک سوال کے جواب میں شمس الدین شیخ نے کہا کہ سند ھ میں سب سے اچھی سڑکیں کراچی سے تھر تک ہیں تھر میں پانی کی دو سکیموں پر کام ہو رہا ہے 30 ارب روپے کیایک منصوبے پرحکومت سندھ کام کر رہی ہے تھر میں زیر زمین پانی بہت زیادہ ہے

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں