ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزی عوام، حکومت اور کاروباری برادری کے مفادات کو زک پہنچا رہی ہے، میاں زاہد

بدھ 19 اگست 2015 17:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 19 اگست۔2015ء )پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزی عوام، حکومت اور کاروباری برادری کے مفادات کو زک پہنچا رہی ہے اسلئے حکومت اسکی روک تھام پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس سلسلے میں قائم اداروں کی استعداد بڑھائے۔

جعلسازی دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے جس کا حجم مختلف اندازوں کے مطابق ایک سے ڈیڑھ کھرب ڈالر سالانہ ہے اور گزشتہ دس سال میں اسکے حجم میں دس ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ جعلساز نہ صرف برسوں کی محنت سے کامیاب ہونے والے برانڈز کی نقالی کر کے روزگار اور محاصل کی صورتحال پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ کئی کمپنیاں انکے حربوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بند ہو جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ عوام کے اعتماد کا خون کرتے ہیں اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں۔ بعض ممالک نے اس شعبہ میں بڑا نام کمایا ہے اور انکا ترجیحی ہدف ترقی پزیر ممالک ہیں۔ اس مکروہ کاروبار میں ملوث افراد کے اثر رسوخ کا یہ عالم ہے کہ بہت کم حکومتیں جعلسازی کو ناکام بنا کر صارفین کی حقوق کا تحفظ کرنے کے اقدامات اور ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جسکی وجہ سے یہ مصیبت دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

میڈیا اس سلسلہ میں آگہی پیدا کر کے باقائدہ قانونی کاروبارکرنے والوں اور عوام کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے جس سے ملکی معیشت کو سنبھال ملے گا جبکہ نقالوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اسکے علاوہ ا سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کیلئے بھی میڈیا بہتر کردار ادا کر سکتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی ساٹھ سے ستر فیصد اشیاء نقلی یا غیر معیاری ہوتی ہیں جن میں ادویات، پرزہ جات، گھی، مصالحے، ملبوسات، خوشبویات، جوتے، کتابیں، سگریٹ، موبائل اور دیگر اشیاء شامل ہیں جن سے سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان کی مارکیٹ میں 40 فیصدلبریکیٹنگ آئل کی منڈی جعلسازوں کے قبضہ میں ہے جس سے صنعت، موٹر کاروں اور موٹر سائیکل مالکان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ سگریٹ کے شعبہ میں جعلسازی اوراسمگلنگ سے حکومت کو سالانہ بیس ارب سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی صورتحال سے ملک میں سرمایہ کاری کی فضا مسموم ہو رہی ہے جس سے غیر ملکی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس ملک میں جعلسازی عام ہو وہاں تخلیقی عمل رک جاتا ہے اسی وجہ سے ننانوے فیصدسے زیادہ ایجادات ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہی ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں