بحریہ ٹاؤن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا عدالت سے معافی مانگنے سے انکار

معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجوانے کی درخواست کر دی میرے موکل سے عدالت براہ راست بات نہیں کر سکتی ہم چاہتے ہیں کہ بنچ اور بار کے درمیان اس طرح کے پیدا ہونے والے معاملات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں،عاصمہ جہانگیر علی ظفر معافی مانگ لے معاملہ کا قانونی فیصلہ کرنے کو تیار ہیں،چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

جمعہ 21 اگست 2015 20:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اظہار وجوہ نوٹس کیس میں عاصمہ جہانگیر‘ اور لطیف آفریدی نے معاملہ قانونی بنیادون پر نمٹانے کے لئے پاکستان بار کونسل کو مقدمہ فیصلے کے لئے بھجوانے کی درخواست کر دی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے میرے موکل سے عدالت براہ راست بات نہیں کر سکتی ہم چاہتے ہیں کہ بنچ اور بار کے درمیان اس طرح کے پیدا ہونے والے معاملات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔

علی ظفر نے بھی عدالت سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا اور معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجوانے کی درخواست کی ہے جبکہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ انا ایک پھنیئر سانپ ہے جس سے اللہ کے رسول اور اولیائے کرام نے منع کیا ہے انا انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔

(جاری ہے)

علی ظفر معافی مانگ لے اور معاملہ کا قانونی فیصلہ کرنے کو تیار ہیں۔ جن وکلاء کو بنچ اور بار کے مسائل حل کرنے کا خیال اور شوق ہے وہ وکلاء کے ایک الگ مقدمے میں پیش ہو سکتے ہیں جن میں بار کونسلز کو طلب کر رکھا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔

ہم تو خیال کر رہے ہیں مگر آپ نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ بیرسٹر علی ظفر اظہار وجوہ کیس کی سماعت کی ہم میں سے ایک جج کو فیملی ایمرجنسی کی وجہ سے اٹھنا پڑے گا۔ جسٹس دوست محمد کا گھر کا مسئلہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواست کی کہ یہ معاملہ چھٹیوں کے بعد رکھا جائے جسٹس فائز عیسیٰ نے علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ نے جو غلطایاں کی ہیں کیا ان کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں قانونی معاملہ کیا ہے اس پر نہیں جا رہے آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ایسوسی ایٹ کی غلطی ہے اور وہ پھر بھی ایسوسی ایٹ ہیں تو سوچنا پڑے گا اگر آپ وکلاء کی بجائے ججز ہوتے تو آپ کیا کرتے۔

موکل غلط اور صحیح ہو سکتے ہیں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں علی ظفر کی وکیل ہوں یہ طریقے کار غلط ہے آپ براہ راست کیوں بات کر رہے ہیں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ وکیل ہیں اور بات بھی کر سکتے ہیں اگر آپ بات نہ کرنے دیں آپ کی مرضی اگر آپ چاہتے ہیں کہ قانونی معاملات کو قانونی طریقے سے حل چاہتے ہیں تو پھر ایسا ہی ہو گا اگر کچھ اور طریقے سے چاہتے ہیں تو بتا دیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سب معافی مانگنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ علی ظفر نے کہا کہ میں جس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ اگر میں نے غلطی کی ہے تو ضرور معافی مانگوں گا۔ جسٹس فائز نے کہا کہ ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہم اس معاملے کو قانونی طور پر حل کریں مگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ میں نے ایک ایک لفظ پڑھ لیا ہے اور عدالت کے آرڈرز بھی پڑھے ہیں میں درخواست کروں گا کہ یہ معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیا جائے۔

پاکستان بار کونسل کے ممبر کے طور پر کہوں گا کہ بنچ اور بار کے تعلق کو خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا یہ صرف علی ظفر کا معاملہ نہیں ہم بطور وکیل غلطی کرتے ہیں تو ہم ہی اس کا ازالہ کریں گے۔ علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے کو قانونی طریقے سے حل کریں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اس کو قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ یہ انفرادی کیس نہیں ہے۔

پیرا میٹرز سمیت ہوں ہم کسی معاہدے کو کرنے کو تیار نہیں ہیں ہم بار اور بنچ کے تعلقات کی بات کر رہے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایک کیس میں ساری بار کونسلز کو بلایا ہوا ہے قلب حسن سمیت بہت لوگ شریک ہوئے ہیں آپ بھی بنچ اور بار کے لئے وہاں پیش ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک انفرادی مقدمہ ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ہم تو دیکھ رہے ہیں اور وہ اس کا خیال نہیں کر رہے ہیں لطیف آفریدی نے کہا کہ پیر کو نہیں ہوں گی لاہور میں موجود رہوں گی۔

میری مصروفیات ہیں اس سے اگلے ہفتے رکھ لیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ فیصلہ ضرور ہو گا چاہے وہ کوئی بھی ہو اگر یہ نظم و ضبط سے ہٹ کر ہوا تو بھی دیکھ لیں گے اور ہو گا تو بھی دیکھ لیں گے۔ بار کونسلوں کے مقدمے میں بھی ضرور آئیں۔ ہم نے اگر کوئی غلطی کی ہے تو ہم معافی مانگیں گے۔ 3 ستمبر تک سماعت ملتوی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انا پرستی ایک پھنیئر سانپ ہے حضور اکرمﷺ اور اولیاء کرام نے اس سے منع کیا ہے کشف العجوب کو بھی پڑھیں۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں