حکومت کمرشل بینکوں سے قرضے لینا کم کرے‘بینک حکومت سے کاروبار کر کے خوش، عوامم کاشتکار اور تاجر نظر انداز

بینکوں اور مارکیٹ اکانومی کے مابین رابطہ انتہائی کمزورہو گیا ہے‘ معاشی سرگرمیوں میں بینکوں کی شمولیت کے بغیر معاشی ترقی کے اہداف کا حصول ناممکن ہے‘پاکستان اکانومی واچ

منگل 25 اگست 2015 18:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25 اگست۔2015ء) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ حکومت مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں سے قرضے لینا کم کرے کیونکہ بینک حکومت سے کاروبار کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ عوام اور کاروباری برادری کو نظر انداز کر رہے ہیں جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔کمرشل بینکوں کو مرکزی بینک سے سرمایہ مل جاتا ہے جسے وہ حکومت کو بطور قرض دے دیتے ہیں جس میں منافع اچھا اور گھانے کا امکان نہیں۔

حکومت سے بہتر منافع ملنے کی وجہ سے بینکار منافع بڑھانے کی ترغیب سے محروم ہو گئے ہیں اور انھیں نہ عوام کی جانب سے ڈیپازٹ بڑھانے کی فکر ہے نہ کاروباری برادری کو قرضے دینے کی۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں چھوٹے اور درمیانے درجہ کے کاروبار کو قرضہ اور عوام کو اپنی بچت پر منافع نہیں مل رہا جس سے دونوں طبقات کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

کئی بینکوں کی ترجیح شہری علاقے ہیں اورسٹیٹ بینک کی کوششوں کے باوجود دیہی معیشت کی طرف پیش قدمی کی رفتار وہ نہیں جو ہونی چائیے۔بینک زرعی ، تجارتی اور صنعتی شعبہ کو چلتے ہوئے منصوبوں کیلئے تھوڑا بہت قلیل المعیاد قرضہ دے رہے ہیں جو ضرورت سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے جبکہ نئے منصوبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اسی لئے شرح سود میں کمی کے باوجود نجی شعبہ کے قرضے ایک سال میں 294 ارب سے گر کر 115 ارب رہ گئے ہیں جن میں مزید کمی متوقع ہے۔

حکومت نے گزشتہ سال کے دوران مرکزی بینک سے قرضہ کی حد توڑتے ہوئے اٹھائیس ارب روپے کا زیادہ قرضہ وصول کیاجس پر آئی ایم ایف نے کوئی خاص اعتراض نہیں کیا۔ ان حالات میں بینکوں اور مارکیٹ اکانومی کے رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے جبکہ معاشی سرگرمیوں میں بینکوں کی شمولیت کے بغیر معاشی ترقی کے اہداف کا حصول ناممکن ہے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں