وفاقی دارالحکومت کے دس لاکھ سے زائد شہریوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی خطرناک بیماریوں کا موجب

فلٹریشن پلانٹس سے بدبودار پانی شہر ی پینے پر مجبور، معدے اور جگر کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے صورتحال پیچیدہ کردی دارالحکومت میں تین ماہ گزر نے کے با وجود فلٹریشن پلانٹ کی صفائی کا کام شروع نہیں ہوسکا

بدھ 2 ستمبر 2015 13:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء) وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے فلٹریشن پلانٹ کا ٹھیکہ دیتے ہوئے تین ماہ گزر گئے لیکن فلٹریشن پلانٹ کی صفائی کا کام شروع نہیں ہوسکا ۔ فلٹر تبدیل نہ ہونے اور کلوروفین پانی میں نہ ڈالے جانے کے باعث فلٹریشن پلانٹس سے بدبودار پانی آنا شروع ہوگیا ۔ پمز اور پولی کلینک میں معدے اور جگر کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے صورتحال پیچیدہ کردی ۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے دس لاکھ سے زائد شہریوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی جارہی ہے اسلام آباد میں اس وقت 35فلٹریشن پلانٹ موجود ہیں دو فلٹریشن پلانٹ میٹرو پراجیکٹ کی زد میں آگئے تھے اور سی ڈی اے کو ان پلانٹ کی ادائیگی بھی کی گئی تھی مگر کرپٹ مافیا نے ابھی تک یہ دونوں فلٹریشن پلانٹ متبادل جگہ پر نہیں لگائے دوسری طرف فلٹرینش پلانٹس کی صفائی اور وقفے کے بغیر لیبارٹری ٹیسٹ کا ٹھیکہ جون 2015ء میں ایورگرین نامی کمپنی کو دیا گیا تھا لیکن ابھی تک یہ کمپنی کام شروع نہیں کرسکی ہے اور سی ڈی اے کی طرف سے اس کام کو شروع کرنے کیلئے ضروری شرائط کو پوری کرنے کیلئے حیل و حجت سے کام لیا جارہا ہے فلٹریشن پلانٹس کی صفائی کے پانی میں کلوروفین اور سفید بجری ملانا اور ہر ماہ فلٹر تبدیل کرنا ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے مگر نیا ٹھیکیدار ابھی تک کام ہی نہیں شروع کرسکا جس کی وجہ سے زیادہ ترفلٹریشن پلانٹس سے بدبودار پانی آرہا ہے اور اس حوالے سے پولی کلینک اور پمز کے ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ اسلام آباد میں معدے اور جگر کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے

اس وقت فلٹریشن پلانٹس کے فلٹر تبدیل ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے ڈاکٹروں نے شہریوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی سی ڈی اے کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں بلکہ ازخود اپنی صحت کا خیال رکھیں اور پانی ابال کا پیئیں ۔

(جاری ہے)

مشہور سپیلشسٹ ڈاکٹر وسیم خواجہ نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالے یرقان کے مریضوں میں اس سال دس سے پندرہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے شہری پانی ابال کر پئیں اور خود کو موذی امراض سے بچائیں دریں اثناء آن لائن کی تحقیقات کے بعد سی ڈ یاے حکام نے پچھلے ایک سال سے اپنی نگرانی میں ایک بھی ٹیوب ویل کے پانی کا لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کروایا سابقہ ٹھیکیدار سی ڈی اے اہلکاروں سے ملی بھگت کرکے مبینہ جعلی رپورٹس کے ذریعے سی ڈی اے سے پیسے وصول کر رہا ہے اور آخری بار عدالتی حکم کے ذریعے سی ڈی اے سے تقریباً دو کروڑ روپے لئے تھے سیکٹر جی سکس ون ٹو میں ٹینکی کے نیچے بنائے گئے فلٹرینش پلانٹ سے انتہائی غلیظ پانی آرہا ہے مگر سی ڈی اے کا کوئی بھی عہدیدار عملی طور پر جا کر صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے تیار نہیں ہے اس حوالے سے سی ڈی اے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اعلیٰ حکام کے نوٹس میں ہے جلد ہی اس بارے میں موثر ایکشن لیا جائے گا ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں