قوانین کو زمینی حقائق کے قریب لانے کی ضرورت ہے، سماجی و معاشرتی عناصر پر استحقا ق کے مطابق توجہ نہیں دی گئی ، کامیاب ریاست کیلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہیے، آئین عوام کے احساسات اور جذبات کا عکاس ہے، پولیس آرڈر2002 کا صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہو سکا، ریاستی کارگزاری میں عوامی امنگوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا تقریب سے خطاب

ہفتہ 5 ستمبر 2015 21:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 ستمبر۔2015ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ قوانین کو زمینی حقائق کے قریب لانے کی ضرورت ہے، سماجی و معاشرتی عناصر پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں، کامیاب ریاست کیلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہیے، آئین عوام کے احساسات اور جذبات کا عکاس ہے، پولیس آرڈر2002 کا صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہو سکا، ریاستی کارگزاری میں عوامی امنگوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔

وہ ہفتہ کو سپریم کورٹ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شہریوں کو سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے، ریاست کا بنیادی اصول عوام الناس کی فلاح ہے لیکن یہاں پر ہر عمل کا محور ریاست ہے، عوام کا ذکر ہی نہیں آتا، ریاستی کارگزاری میں اکثر جگہ عوامی امنگوں کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا جاتا جبکہ آئین عوام کے احساسات کا عکاس ہے، کامیاب ریاست کیلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ شہریوں کا استحقاق اولین ترجیح ہونا چاہیے، ملک کے عوام ہی اصل مالک ہیں، ریاستی ادارے ان کے ملازم ہیں، قوم کو اپنی اخلاقی اقدار اور معاشرتی انحطاط پر نظر ڈالنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں میں ملکی عوام کو موثر شمولیت ضرور ہے،عوام کے منتخب نمائندوں سے حکمرانی ہمارے آئین کی بنیاد ہے، لیات علی خان نے کہا تھا کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں، ملک کے عوام ہی اصل مالک ہیں ریاستی ادارے ان کے ملازم ہیں، یہاں پر عمل کا محور ریاست ہے اور عوام کا ذکر ہی نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی مرکزی اہمیت کو تسلیم نہ کیا جانا آئین کا قصور نہیں،شہریوں کوبہترین سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، عوام ریاست پر فوقیت رکھتے ہیں نہ کہ ریاست عوام پر، عوام کی اسی طاقت کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، قوم کو اپنی اخلاقی اقدار اور معاشرتی انحطاط پر نظر ڈالنا ہو گی، ریاست اور شہریوں میں خلیج کم کرنے کیلئے کرپشن ختم کرنا ہو گی، بدلتے حالات میں ریاستی اداروں میں ارتقا کا عمل ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کا مقصد عوامی فلاح اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے، ہمیں نو آبادیاتی نظام کی ہر نشانی مٹانا ہو گی، دقیانوسی ماڈل کو تنقیدی نظر سے دیکھنا اور جائزہ لینا ضروری ہے، ریاستی اداروں کو یہی عاجزی و انکساری اختیار کرنی چاہیے، طبقاتی تفریق کے ماحول میں قومی یکجہتی ممکن نہیں، آزدی سے قبل قانون اور عوام کی مرضی کا دور کا تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد یہی بنیادی تبدیلی لانا ضروری تھا، قروار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانا خوش آئند اقدام تھا، پاکستان میں احتساب کا نظام بہت کمزور ہے، ریاست کی کامیابی کا انحصار اداروں کی فعالت اور کارکردگی پر ہوتا ہے، ہر سال غریب اور نادار لوگ سیلاب جیسی آفس کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی رو سے ریاست ہر فرد کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، آئینی فرائض سے غفلت ریاست اور عوام میں خلیج پیدا کر رہی ہے، حقوق سے محرومی عوام میں مایوسی اور منافرت کو جنم دیتی ہے، عملی اہداف حاصل کرنے اور اداروں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین کو زمینی حقائق کے قریب لانے کی ضرورت ہے، سماجی و معاشرتی عناصر پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں، کامیاب ریاست کیلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہیے، آئین عوام کے احساسات اور جذبات کا عکاس ہے، پولیس آرڈر2002 کا صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہو سکا، ریاستی کارگزاری میں عوامی امنگوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں