ایل این جی سپلائی کے قانونی انتظامی اور تجارتی معاملات پر تنازعات شدت اختیار کر گئے

پیر 7 ستمبر 2015 13:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء)ایل این جی سپلائی کے قانونی انتظامی اور تجارتی معاملات پر تنازعات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جبکہ ایل این جی کے نئے بزنس نے اپنے چھ ماہ پورے کر لئے ہیں ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس پائپ لائن لمٹیڈ کی قائم مقام مینجنگ ڈائریکٹر عظمیٰ عادل خان نے وزارت پٹرولیم کے احکامات ماننے اور چارج لینے سے انکار کر دیا اور ان کے سابق عارف حمید نے عدالت میں اپنی برخاستگی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ یہی کافی نہیں تھا ۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی عبوری ری گیسی فائڈ ایل این جی کی قیمت بھی جاری کرنے سے گریز کیا جو چھ ماہ سے زائد عرصے سے کثیر صارفین کو فروخت کی جا رہی ہے ۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت پٹرولیم کی دو ٹیمیں ، ایک کی سربراہی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی جبکہ دوسرے کی سربراہی سیکرٹری ارشد مرزا کر رہے ہیں نے لاہور اور اسلام آباد میں مصروف ہفتہ گزارا ہے ۔

جس کا مقصد ثانوی قیادت کو معاہدوں اور قیمتوں کے نوٹیفیکیشن کے حوالے سے قائل کرنا تھا ۔

پی ایم ایل (ن) کے سینئر اراکین نے پس پردہ مداخلت کی ہیں تاکہ معاملات کو شفاف بنایا جا سکے اور سردیوں کی آمد پر گیس کی کمی کو دور کیا جا سکے ۔رپورٹ کے مطابق عظمی عادل خان نے پٹرولیم منسٹری کو لکھے گئے مراسلہ میں کہا ہے کہ میں یہ ایڈوائس دینے پر مجبور ہوں کہ میں بطور کمپنی کے قائم مقام ایم ڈی کا چارج سنبھالنے سے قاصر ہوں کیونکہ قانون کے تحت یہ نوٹیفیکیشن نقائص سے پر ہے ۔

ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی عجیب و غریب بات ہے کہ عظمی خان جو کہ چیف فنانسر آفیسر تھیں اور انہیں قائم مقام مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے نوٹیفیکیشں جاری کیا گیا اگرچہ کمپنی میں دو ڈپٹی مینجنگ ڈائریکر پہلے سے کام کر رہے تھے انہوں نے وزارت کو یاد دہانی کرائی کہ کمپنی آرڈیننس 1984 کی دفعہ 202 کے تحت کسی کمپنی کے ڈائریکٹر جو تین چوتھائی ڈائریکٹرز سے کم ہو اس کی مدت کے خاتمے سے پہلے چیف ایگزیکٹو کو ہٹا نہیں سکتے ۔

عظمی خان نے وزارت پر اصرار کیا کہ وہ ایس این جی پی ایل کے ڈائریکٹر بورڈ کے ساتھ معاملہ اٹھائے اور مزید کارروائی کی جائے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے درمیان مذاکرات بغیر کسی کے نتیجے پر ختم ہوئے ہیں کیونکہ ریگولیٹر کو مکمل دستاویزات معاہدے اور کمپنیوں و ایل این جی صارفین کے درمیان معاہدے کی کاپیاں چاہئے تھی ۔عبوری نوٹیفیکیشن کی حکومتی درخواست بھی پوری نہیں کی گئی ۔دریں اثناء پٹرولیم وزارت نے کہا ہے کہ میڈیا میں مسخ شدہ تصویر اور حقائق پیش کیے جا رہے ہیں ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں