دفاتر، سکولز،بیوٹی پارلرز،سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو بلاتفریق کارروائی کا حکم دیدیا

منگل 15 ستمبر 2015 16:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے شہری علاقوں میں، دفاتر ، نجی سکولز ،بیوٹی پارلر سمیت1200سے زائد تجاوزات اور کمرشل سرگرمیوں کے خلاف سی ڈی اے کو بلاتفریق کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ سی ڈی اے کی آشیرباد سے غیر قانونی طو ر قائم برج فیکٹر کے معاملات ختم کرنے کیلئے دو سال کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ سی ڈی اے قواعد وضوابط سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنے کی اجازت نہیں دینگے سی ڈی اے نے اگر آپ کو غیر قانونی طریقے سے کام کرنے کی اجازت دی ہے تو اب وہ مزید مہلت کیسے دے سکتے ہیں ۔

دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ سی ڈی اے بورڈ ممبران کوئی آسمان سے نہیں اترے کہ ان کے فیصلوں میں ترمیم و اضافہ نہیں کیا جا سکتا ۔

(جاری ہے)

کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ سی ڈی اے کی جانب سے رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں تمام تر تجاوزات اور کمرشل سرگرمیوں کی شہر سے باہر منتقلی کے لئے 6 ماہ کا وقت دیا گیا ہے ۔

خلاف ورزی کرنے والوں کا الاٹمنٹ منسوخ کر دی جائے گی ۔ اس بات کا فیصلہ سی ڈی اے بورڈ کی اہم ترین میٹنگ میں کیا گیا تھا ۔ انہوں نے یہ رپورٹ منگل کے روز پیش کی ہے ۔سی ڈی اے نے کیرج فیکٹریکیس میں رپورٹ جمع کروائی ۔ یہ رپورٹ حافظ ایس اے رحمان نے جمع کروائی ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ قواعد و ضوابط کے خلاف ہے اور کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی آپ نے اپنی رپورٹس میں لوگوں کو 2 سے 3 سال تک کا وقت دے دیا ۔

سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ رولز وضع کئے گئے ہیں سول سوسائٹی اور چیمبر آف کامرس کے تحفظات پر سی ڈی اے بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی طرح سے بھی امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ چھ ماہ میں تمام لوگوں کو کاروبار ختم کرنے کی مہلت دی گئی ہے بصورت دیگر تمام تر الاٹمنٹ کیسنل کر دی جائے گی ۔

مختلف کمرشل پلاٹس کی نیلامی کا بھی فیصلہ کیا جائے گا ۔

چھ ماہ کا وقت ان شرائط پر دیا گیا ہے یہ وقت صرف ان جگہوں کے لئے ہے جس کے حوالے سے عدالت نے فیصلے کر رکھا ہے جن کے خلاف کارروائی جاری ہے جاری رہے گی ۔ طے شدہ وقت تک جگہیں خالی نہیں کرائی جائیں گی ۔ بلڈنگ لاز کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی جائے گی ۔ سی ڈی اے اشتہار سے ہی اس کا آغاز ہو گا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وکیل علی رضا نہیں آ سکے ہیں انہوں نے یہ درخواست دے رکھی ہے ۔

عدالت نے درخواست گزار کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ تفصیل پوچھی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ مجسٹریٹ کے حکم کے خلاف کوئی درخواست فائل کی گئی تھی اس میں دوسرے لوگ کس طرح سے پارٹی بن سکتے ہیں ہم اس طرح کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں ۔قمر افضل نے کہا کہ سی ڈی اے نے 1200 جگہوں کی فہرست پیش کی ہے ۔ میرا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے ۔ ہم نے بھی دلائل دیئے تھے میری حاضری بھی لگائی گئی تھی ۔

سی ڈی اے اپنی مرضی کر رہا ہے جس کو چاہتا ہے اجازت دے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نہیں دیتا ہے ۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہم نے امتیازی سلوک کرنے سے منع کیا تھا جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا آپ فہرست کے بارے میں بیان ریکارڈ کرائیں گے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے جواب میں فہرست دی گئی ہے جس میں چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا نام شامل نہیں ہے تو سروے کے وقت یہ نہیں آئے ہیں ۔

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ایک کام جب سی ڈی اے نے کرنا ہی ہے تو پھر رہ جانے والی پراپرٹی کو کیوں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔ سی ڈی اے وکیل نے کہا کہ یہ بورڈ کا فیصلہ ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بورڈ کوئی آسمان سے نہیں اترا کہ ان کا فیصلے ہی اہم ہے اس کے لئے کچھ اور نہیں کیا جا سکتا ۔ اس افسر کو بلائیں یہ ختم کریں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ سروے ٹیم نے کسی کے ساتھ تو زیادتی بھی کر سکتا ہے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کوئی سروے میں آیا ہے یا نہیں فہرست میں نام ہے یا نہیں سب کو شامل کیا جائے ۔ آپ کے بیان کی روشنی میں درخواست نمٹا دیں گے۔ بعد ازاں سی ڈی اے کے وکیل حافظ ایس اے رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جس درخواست کی وجہ سے آپ نے ہم سے جواب مانگا ہے مذکورہ کمپنی کا نام پہلے ہی فہرست میں شامل ہے اس لئے اس میں مزید اب حکم کی ضرورت نہیں رہی جبکہ برج فیکٹر کے مالک اکبر کی جانب سے قمر افضل ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ برائے مہربانی ان کو دو سال کا عرصہ دیا جائے تاکہ جو اس نے سرمایہ کاری کررکھی ہے وہ برباد نہ ہو اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کسی کو قانون سے ہٹ کر کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے یہ بھی سی ڈی اے کی مہربانی ہے کہ اس نے آپ کو غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دی ہم نتائج کی پرواہ کئے بغیر قانون پر عملدرآمد کروائینگے اب تک جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار سی ڈی اے ہے حالات یہ ہیں کہ عدالت نے جن کمرشل سرگرمیوں کو گرانے کا حکم دیا ہے ان کے حوالے سے ماتحت عدلیہ سے یا تو حکم امتناعی لے لیے گئے ہیں یا پھر کسی اور طریقے سے ان معاملات کو ٹالا جارہا ہے اس پر قمر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ سی ڈی اے کے ماسٹر پلان کی بات کرتے ہیں 1976ء میں بنایا گیا ماسٹر پلان موجودہ تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور اس میں کہیں نہیں لکھا کہ میٹرو بس سروس چلائی جائے گی اگر وہ وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے چلائی جاسکتی ہے تو دیگر اقدامات کیوں نہیں کئے جاسکتے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ عدالت آجاتے اس کا بھی فیصلہ کردیتے بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی ہے کہ بلاتفریق کارروائی کی جائے اور اس بارے پیش رفت رپورٹ تین ماہ میں سپریم کورٹ میں پیش کی جائے ۔

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ تمام تر مقدمات جلد از جلد نمٹا کر ان کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں