سینیٹ کی انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی کی یوٹیوب کے معاملے پر قانون سازی کرکے عوام کی یوٹیوب تک رسائی یقینی بنانے کی سفارش

ہمارا وزیراعظم سپریم کورٹ کے فیصلے پر تین منٹ میں گھر جاسکتا ہے تو ہزاروں بیواؤ ں کے پینشن کی ادائیگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکتا؟رحمان ملک چیئرمین کمیٹی کی وزارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد اور اگلے اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

منگل 15 ستمبر 2015 18:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 ستمبر۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی نے حکومت سے یوٹیوب کے معاملے پر قانون سازی کرکے عوام کی یوٹیوب تک رسائی یقینی بنانے کی سفارش کردی ہے۔سینیٹر شاہی سید کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں ملک میں یوٹیوب کی بندش کا جائزہ لیا گیا۔

وزارت آئی ٹی حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ یوٹیوب سپریم کورٹ کے حکم پر بند ہے، اسے کھولنے کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ارکان کمیٹی نے کہا کہ ایران مصر، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں یوٹیوب تک رسائی ہے۔کمیٹی نے سفارش کی کہ حکومت یوٹیوب کے معاملے پر قانون سازی کرے اور عوام کی یوٹیوب تک رسائی یقینی بنائے۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گوگل نے یوٹیوب سے متنازع مواد ہٹانے کے لیے پیسے مانگے،حکومت نے پیسے نہیں دیے تو گوگل نے مواد نہیں ہٹایا۔

آئی ٹی حکام نے بتایا کہ یوٹیوب سے متنازع مواد بلاک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں، اسے صرف یوٹیوب کے مقامی ورڑن کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یوٹیوب کے مقامی ورڑن کے لیے گوگل سے بات چیت ہو رہی ہے۔خیال رہے کہ دنیا کی مقبول ترین ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ پاکستان میں ستمبر 2012 سے بلاک ہے جو گوگل کی جانب سے توہین آمیز فلم ہٹائے جانے کے انکار کے بعد ہلاک کی گئی تھی۔

اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ جب تک گستاخانہ یا قابل اعتراض مواد کو بلاک کرنے کا کوئی موثر انتظام نہیں ہو جاتا، یوٹیوب پر ملک بھر میں پابندی رہے گی۔اب یوٹیوب پر پابندی کو تقریباً تین سال ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین متبادل چینلز کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔پاکستانی صارفین کو یوٹیوب تک رسائی دینے کے عمل کی رفتار میں اضافے کے حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی مدد اور تحقیق کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 2011 میں 1700 الفاظ پر پابندی لگا دی تھی جبکہ 2010 میں قابل اعتراض مواد شائع کرنے پر فیس بک کو 2 ہفتوں کیلئے بند کردیا گیا تھا اور اب بھی قابل اعتراض آن لائن لنکس پر بابندی کا سلسلہ جاری ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے وزارت پر زور دیا ملک میں بچوں کو جدید تعلیم تک رسائی اور پاکستانی میں مذہبی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے یوٹیوب کو کھولنے کیلئے اقدامات تیز کرنے چاہئیں ۔

پی ٹی سی ایل کے پٹیشنرز کی پٹیشن میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق اضافہ کرکے کمیٹی کو آئیندہ اجلاس میں آگاہ کیا جائے۔ وزارت آئی ٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی سی ایل کے پٹشنرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف پی ٹی سی ایل اپیل میں گئی ہوئی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بیس بیس سال سے بیوائیں عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اپیل میں گئی ہے اگر عدالت نے حکم امتناعی جاری نہیں کیا تو پھر اس فیصلے پر عملدرآمدہونا چاہئے اور پینشنرز کو پے منٹ کرنی چاہئے ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس کیس میں حکم امتناعی جاری نہیں ہوا ہے اور اس فیصلہ پر کام جاری ہے۔ رحمٰن ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پٹیشنرز کو ادائیگیوں کا حکم دے دیا ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ مجھے وقت دیا جائے ایک دو روز میں میٹننگ بلاؤں گا جس میں پی ٹی سی ایل کے لوگوں کو بھی بلایا جائے گا اس میں دیکھیں گے کہ وزارت عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔رحمٰن ملک نے کہا کہ ہمارا وزیراعظم سپریم کورٹ کے فیصلے پر تین منٹ میں گھر جاسکتا ہے تو ہزاروں بیواؤ ں کے پینشن کی ادائیگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس پر چیئرمین کمیٹی نے وزارت کو ہدایت دی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے اور اگلے اجلاس میں اس حوالے سے کمیٹی کو آگاہ بھی کیا جائے۔

یوٹیوب کی بندش کے حوالے سے کمیٹی کو موصول ہونے والی پٹیشن پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدلیہ کے حکم پر یوٹیوب بند ہے ایڈیشنل سیکرٹری آئی ٹی نے بتایا کہ یوٹیوب سے قابل اعتراض مواد ختم نہیں کیا جاسکتا وزارت کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یوٹیوب عام اشو ہے لیکن جو مذہبی چیزیں پھیلائی جاتی ہیں وزارت اس مواد کو روکے یوٹیوب کھلنی چاہئے تاکہ بچوں کو تعلیمی سہولت مل سکے ۔

سینیٹر عثمان سیف اﷲ خان نے کہا کہ اسلامی ممالک سعودی عرب ، ایران ، مصر اور دوسرے ممالک میں یوٹیوب تک رسائی حاصل ہے لیکن اس کے لیے سیاسی جرائت کی ضرورت ہے جس کی یہاں کمی ہے ٹی آئی پی کی سکول اساتذہ کی پٹیشنر صائمہ بی بی نے کمیٹی کو بتایا کہ ۲۳ سالوں سے اساتذہ کنٹریکٹ پر پڑھا رہے ہیں مستقل نہیں کیا جارہا سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ہری پو ر جلسے میں مستقل کرنے کا اعلان کیا اور خورشید شاہ کمیٹی نے بھی ۲۰۱۲ میں مستقل کردیا لیکن موجودہ حکومت نے ہمیں نوکریوں سے نکال دیا ہے ایک وزیراعظم نے مستقل کرنے کا حکم دیا جس پر عمل نہیں ہوا ڈھائی سال کے بعد نوکری سے نکالنے کے حکم پر فوراً عمل کردیا گیا ایم ڈی ٹی آئی پی نے بتایا کہ فیکٹری نقصان میں جارہی ہے اور غیر ضروری اخراجات کم کئے گئے ہیں جس پر سینیٹر روبنیہ خالد نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم پر اخراجات کو اور تعلیم دینے والی اساتذہ کو غیر ضروری قرار دیا جارہا ہے ہم نے نہ تعلیم اور نہ تعلیم دینے والوں کو عزت دی جس کی وجہ سے آج ہم یہاں کھڑے ہیں اور کہا کہ ایم ڈی کی غیر ضروری بات سے میری دل آزاری ہوئی ہے وزارت آئی ٹی کی میمبر لیگل نے کہا کہ یہ معاملہ بھی پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے جڑا ہوا ہے جن زمینوں پر اسکول ہیں پی ٹی سی ایل کو ٹرانسفر ہوچکی ہیں ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کمیٹی سے سفارش جانی چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو کیسے پرائیویٹ کیا جاسکتاہے سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کو دیکھا جائے کہ ٹی آئی پی کے سکولوں اور ہسپتالوں کی ان کی ذمہ داری ہے۔ ہم قرارداد لاسکتے ہیں کہ ایسے اداروں کو دوبارہ نیشلائز کیا جائے ۔ سرکار سے زیادہ کوئی طاقتور چیز نہیں ہوتی ۔ سینٹرروبینہ خالد نے کہا کہ بچوں کی ایجوکیشن کے مسائل کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

ٹیچرز کو مستقل کیا جائے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے ٹی آئی پی کی پٹیشن کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت دی اور وزارت کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی سی ایل اور صوبائی حکومت سے بھی بات کرے ۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں ہونا چاہیے ۔ پی ٹی سی ایل کی پرائیویٹائز یشن کا پنڈوراباکس جس نے کھولا ہے اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی شاہی سید نے کہا کہ پی ٹی سی ایل واحد حکومتی ادارہ تھا جو منافع میں چل رہا تھا۔ ایم ڈی ٹی آئی پی نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ ٹی آئی پی کے ملازمین کی رکی پڑی تین ماہ کی تنخواہ عید سے قبل انہیں مل جائے گی۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے سابقہ کمیٹی کی طرف سے بھجوائی گئی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ کیا یہ ہمارے اداروں کی نااہلی نہیں ہے ہم اپنا وقت ضائع نہیں کر رہے ہیں انہوں نے ہی ایجنڈے کو آئندہ میٹنگ میں دوبارہ رکھنے کی ہدایت کر دی ۔

نتیجہ نہیں ملا تو ہمیں کیا ملے گا۔ آئی سی ٹی سکالرشپ کے حوالے سے پٹیشن پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ یہ پروگرام جارہا رہنا چاہیے۔ ممبر ٹیلی کام مدثرنے کمیٹی کو بتایا کہ اس سکالر شپ کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اس سکالر شپ کے تحت بہت سے دیہی بچے تعلیمی میدان میں آگے آئے ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کی غلط نجکاری اورٹرانزکشن کی وجہ سے جائیدادیں حولاے کرنے کے باوجود ملک کے ۸۰۰ ملین ڈالر ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔

سینیٹرز نے پی ٹی سی ایل پر خصوصاََ بیواؤں کی پنشنز کے حوالے سے اپنا دباؤ برقرار رکھا سینیٹر رحمن ملک کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی عزت کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو ٹیلی کام کمپنیوں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگیوں کی تفصیلات بتائیں اور بتایا کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد سروسز پر سیلز ٹیکس صوبوں کی چلا گیا ہے ۔

کمپنیوں کے منافع اور نقصان کا درست اندازہ لگانے کیلئے ٹرانزک آڈٹ کا نظام لاگو کرنا ہو گا۔ عدالتوں میں آڈٹ کیسز چل رہے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ چھ سالوں میں موثر آڈٹ نہیں ہو سکا۔ سینیٹر روبینہ خالد کے موبائل کارڈ فروختگی اور درست اعدادوشمار کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا پی ٹی اے، ایف بی آر اور وزارت آئی ٹی جواب نہ دے سکے چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کمپنیاں اپنی مرضی سے جو ٹیکس دے رہی ہیں ایف بی آر وہی لے رہا ہے ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایکسپرٹ موجود نہیں جس پر سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی اس حوالے سے ایف بی آر حکام کی مدد کرے ۔

سینیٹر کریم خواجہ نے اپنے الیکٹرانک پرائم بل کے حوالے سے کمیٹی کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا بل اور حکومت کا بل بھی موجود ہے حکومت اپنا بل قومی اسمبلی سے پاس کرانے کے بعد سینیٹ میں پھنس جائے گی۔دہشتگردی کے خلاف یہ بل قومی ضرورت ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ مل کر اجلاس کریں ۔ انا کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اس بل کو پاس ہونا چاہیے۔ قومی اسمبلی سے بل پاس ہو کر آنے دیں جب سینیٹ کی کمیٹی کے پاس آئے گاتو پھر آپ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنا دی جائے گی اجلاس میں سینیٹرتاج آفریدی ،رحمن ملک ، عثمان سیف اﷲ خان، شبلی فراز ، نسیمہ احسان ، روبینہ خالد، مفتی عبدالستار اور وزارت کے اعلی حکام بھی موجود تھے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں