سینیٹ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملے کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور ، آپریشن ضرب عضب میں قربانیاں دینے والے فوجی جوانوں کو زبردست خراج عقیدت پیش

نیشنل ایکشن پلان ، (ن)ایکشن پلان ہے، اسلام آباد اور پنجاب دہشت گردوں کا منبع ہیں، سب سے بڑے3 دہشت گرد پنجاب میں موجود ہیں ،نیشنل ایکشن پلان سندھ میں سارا زور دیا جا رہا ہے ، وزیراعظم نے سعودی عرب اور ایران کے دورہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا دو آدمی سعودی عرب اور تہران گئے ،اگر یہی روایت رہی تو کل ایک آدمی رہ جائے گا، اعتزاز احسن

بدھ 20 جنوری 2016 22:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔20 جنوری۔2016ء) سینیٹ نے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت اور آپریشن ضرب عضب میں قربانیاں دینے والے آفیسران اور جوانوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کی ہر قسم اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف عدم برداشت پالیسی اختیار کی جائے ، سینیٹ نے دہشت گردی کے خلاف صوبائی اور وفاقی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی کی کارکردگی بہتر بنانے اور نگرانی کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل د ینے کا بھی مطالبہ کیا۔

بدھ کو ایوان بالا میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے تمام پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت سے سانحہ چارسدہ کی مذمت میں کیلئے تیار کی گئی قرار داد ایوان میں منظوری کیلئے پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔

(جاری ہے)

قبل ازیں سانحہ چارسدہ پر ایوان میں تفصیلی بحث کی گئی جس میں ارکان سینیٹ راجہ ظفر الحق، اعتزاز احسن، طاہر مشہدی، شیری رحمان، جنرل(ر) عبدالقیوم ، حافظ حمد اﷲ ، جہانزیب جمالدینی، عثمان کاکڑ، اعظم سواتی سمیت 39ارکان نے حصہ لیا، بحث کے اختتام پر منظور کی گئی قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے اندوہناک حملہ پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتا ہے، سینیٹ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے بڑے پیمانے پر دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانے ختم کرنے پر پاکستان کی بہادر افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

سینیٹ نے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ خیبرپختونخواہ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے حملے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیا جائے تا کہ دہشت گردوں کا صفایا ہو جائے، جمرود میں ہونے والے دھماکے کے بعد سیکیورٹی سخت کی جانی چاہیے تھی، ہم اپنی چوڑیاں ان کو دے دیں اور اسلحہ ہم اٹھا کر دہشت گردوں کامقابلہ کریں، باچا خان کی برسی کے موقع پر یہ سانحہ رونما ہوا، باچا خان تو عدم تشدد کا فلسفہ رکھتے تھے، خپتونوں کے بچوں کو آج قربان کیا جا رہا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ چارسدہ واقعہ کے حوالے سے کوئی دورائے نہیں، ہم اسکی مذمت کرتے ہیں، یہ سیکیورٹی کی مجرمانہ غفلت ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت اس واقعے کی ذمہ داری ہے، خیبرپختونخوا افرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور دہشت گردی کے واقعات کا ہمیشہ نشانہ بنا ہے، دہشت گردی کے واقعات پر وفاقی حکومتوں کو شرم آنی چاہیے کہ ابھی تک پارلیمان کا مشترکہ اجلاس نہیں بلایا گیا، ایک ہفتے سے خطرے کی اطلاع تھی، ساری دنیا ہم سے پوچھ رہی ہے کہ ہمارے بچوں کے خون کا حساب کون دے گا، جن کے پاس وسائل ہیں، وہ بیرونی دورے کر رہے ہیں، وزیراعظم میں ثالثی نہیں کر رہے ، باہر ممالک کے مابین ثالثی کر رہے ہیں۔

مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا اور دھند کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو داخل ہونے میں مدد ملی، اس میں بے شمار جانیں ضائع ہوئی ہیں،ایک ہفتے سے معلومات مل رہی تھیں کہ کسی یونیورسٹی پر حملہ ہونا ہے اور صوبائی حکومت نے سیکیورٹی کے اقدامات نہیں کئے، مسلسل ہمارا ملک بدامنی کی لپیٹ میں ہے اس ایوان میں قرار دادیں آئیں ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور ہم انتظار میں ہیں کہ کب واقعات رونما ہوں گے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، حالات خودبخود ٹھیک نہیں ہو نگے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہمت نہیں ہو رہی کہ کس طریقہ سے دکھ کو بیان کیا جائے ۔ اور نوجوان جان کی بازی ہار گئے اس میں ہمارا قصور ہے کہ نہیں اور نیشنل ایکشن پلان کا قصور ہے کہ نہیں ہے ۔ان کا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں اور تعلیم کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ حکومت دوسری جگہوں سے وسائل بچا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے اداروں کو دیا جائے ۔

جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہو گی جنگ جاری رہے گی ۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ آج کے واقعہ کی پرزور مذمت کرتے ہیں آج باپا جان خان کی برسی بھی تھی اور ساری زندگی عدم تشدد کی پالیسی کے لئے جدوجہد کی اور اے این پی نے کردار ادا کیا ۔ ٹیکٹا، نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سوالات کے جواب نہیں دیئے گئے ۔اگر مسائل کا مسئلہ نہیں اور کوآرڈینیشن کا مسئلہ نہیں تو نیشنل ایکشن پلان کے نتائج کیوں نہیں سامنے آ رہے ہیں ۔

ماضی میں سوات میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کا جھنڈا لگا کر دیکھا یا جب سب سے ایک بینچ پر نہیں تھے لیکن اب سارے ادارے ایک بینچ پر ہیں لیکن نیشنل ایکشن پالان کے نکات پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے چوہدری نثار کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔سینیٹر زبیدہ عابد نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نتائج پر بریفنگ کیوں نہیں دی جا رہی ۔

دہشت گرد گولیوں سے ماؤں کی گود اجاڑ رہے ہیں ہمیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیئے اور اسلام آباد کا زیادہ خطرہ ہے اگلا ٹارگٹ ہو سکتا ہے کچھ کر دکھانے کا وقت ہے ۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ 20جنوری پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن ہے ۔ یہ ریاست کی ناکامی ہے اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے ۔ کاؤنٹر ٹررازم سٹریٹجی کہا ں ہے ۔ سیاسی اور ملٹری اداروں کے درمیان کوآرڈیننس کہاں ہے ۔

ریاست لوگوں کے تحفظ میں ناکام ہو گئی ہے ۔ ان کیمرہ کی اعلیٰ سطح کی وزارت داخلہ کی سیکیورٹی کے حوالے سے بریفنگ لی جائے ۔ واقع کی توقع تھی کہ دہشت گردی کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ انسداد دہشت گردی کی پالیسی بنائی جائے ۔سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ مسئلہ کا حل ان کیمرہ بریفنگ یا اے پی سی میں نہیں ہے ۔اور اس کا حل پارلیمنٹ کے پاس ہے حکومت پارلیمنٹ کی سیکیورٹی پر ایک کمیٹی بنائے اور نگرانی ہو گی تو نتائج سامنے آئیں گے۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ موجودہ حکومت پر سارے گند کا الزام لگانا صحیح نہیں ہے یہ 35سالوں کا گند ہے حکومتیں مصلحت کا شکار ہو جاتی ہیں ۔باچا خان جو عدم تشدد پر رکھتے تھے اور ان کی برسی پر دہشت گردی کر کے دہشت گرد ایسا پیغام دے رہے ہیں ۔عسکری ،سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اکٹھا کر کے مسئلہ کا حل نکالا جائے ۔ حل ان تینوں کے پاس ہے ۔ایک بندہ اگر کہہ دے کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف ثبوت نہیں تو اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے ۔

دہشت گردی ختم کرنا کسی ایک حکومت کا کام نہیں ۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ آج کے واقع کی پر زور مذمت کرتا ہوں پچھلے 35سال سے مذمت کرتے آرہے ہیں ، دہشت گرد اگر مار کر چلے جاتے ہیں پچھلے 35 سال سے صوبہ خیبر پختونخواہ اس ظلم کو دیکھ رہا ہے ۔ جب تک اس مسئلے کو مسئلہ نمبر ون کہیں گے اور وسائل کی فراہمی کو نمبر ون مسئلہ نہیں کہیں گے اس مسئلے کا حل نہیں نکلے گا ۔

دہشت گرد ظالم ہیں ان کو تباہ کرنا ضروری ہے ۔ سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ شہدا کے ورثاء سے تعزیت کرتی ہوں ۔قتل عام کب تک جاری رہے گا اور ہم مذمتی قراردادیں پاس کرتے رہیں گے ۔اس کے لئے خلوص کی ضرورت ہے اور دعاؤں سے مسائل حل نہیں ہو ں گے تدبیر کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر جاوید عباس نے کہا کہ یہ حملہ پاکستان کے ہر گھر میں ماتم ہے ۔ جس طرح یونیورسٹی کے بچوں اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو شہید کیا ہے وہ قوم کا اتحاد توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے یونیورسٹی پر حملہ کیا ہے ۔

ایک ایک دہشت گرد جب تک اس سر زمین میں موجود ہے جنگ جاری رہے گی ۔اتحاد کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر محمد علی نے کہا کہ آج ہمیں ایک بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ دہشت گرد ہم سے منظم ہیں ہمارے پاس جذباتی باتیں وہ دو قدم ہم سے آگے ہیں،ہم صرف مذمتی قرارداد یں پاس کر رہے ہیں ۔ہم آج بحث کر رہے ہیں کہ داعش ہے یا نہیں ۔آج شعوری احساس ہونا چاہیئے کہ انٹرل آرم تنازعہ کے مطابق حکمت عملی بنانی چاہیئے ،آج ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ دہشت گردی ختم ہوئی ہے نہ دہشت گرد ختم ہوئے ہیں ،آج کا واقعہ ویک اپ کال ہونا چاہیئے ،واقعہ ہماری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے ، اس وقت احتساب ہونا چاہیئے اور چوہدری نثار کو استعفیٰ دینا چاہیئے ۔

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ایم کیو ایم کی طرف سے شہداء کے لواحقین سے تعزیت کرتا ہوں ۔ واقعہ مکمل ناکامی نتیجہ ہے ،حکمت عملی جنگ کی ہونی چاہیئے۔وفاق اورصوبائی حکومتیں ناکام ہوئیں ہیں اور اس کے بعد انٹیلی جنس کی ناکامی ہو گئی ہے اور پھر مقامی انتظامیہ کی ناکامی ہے ،دہشت گرد اس قابل نہیں کہ ان کو انسان سمجھا جائے اور یہ ہر جگہ بربریت دکھائی ہے ۔

فوج نے بڑی قربانیاں دیں ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں حکومت بالکل ناکام ہے اور ایک سال بعدکہا جارہا ہے کہ ٹی اوآر پر کام کیا جا رہا ہے ۔مولانا عبدالعزیز ادھر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک آدمی سے ڈر رہے ہیں ۔سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ افسوس ناک اور دردناک واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہوں ،16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو ہم نے سوالات کئے اس کے جواب نہیں دیئے اور آج 60شہادتیں ہوئیں کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے اطلاعات تھیں ، پہلی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ پہلے سے سدباب کیوں نہیں کیا ۔

قوانین بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان بنا لیکن نتیجہ کیا نکلا ۔ کہیں غفلت ہو گئی ہے ۔ آج اعتراف کرنا ہو گا کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں اور تعلیمی اداروں اور شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکے ۔واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے سزادی جائے ۔سینیٹر حمزہ نے کہا کہ ناگہانی واقعہ کے بعد یہاں کھڑے ہو کر نوحہ کہتے ہیں ۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہو گئی ہیں ،وفاقی حکومت خصوصی توجہ سے اور انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچائے ۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ گزشتہ 15سالوں سے دوسرے دن اور دوسرے ہفتہ پورا ملک سوگ میں ہوتا ہے اور ملک لہو لہان ہوتا ہے آج کا واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی ہے ۔ بچوں اور تعلیمی اداروں کو محفوظ نہیں کر پا رہے ۔مسئلہ پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے ۔سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ چارسدہ واقعہ کی وجہ سے آج ہاؤس کا ماحول افسردہ ہے ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو تحفظ دے ۔

سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے ایک سال بعد واقعہ ہونا نیشنل ایکشن پلان کی واضح ناکامی ہے ۔سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے کہاکہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جب تک افغانستان میں امن نہیں ہو گا پاکستان میں بھی امن نہیں ہو گا، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ واقعات کا تسلسل دھائیو ں سے جاری ہے ‘ ہماری ناکامی سے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے پالیسی نہیں بنائی جا سکی، لوگو ں کی سوچ کو بدلنا ہو گا۔

سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ آج ہمارے دل رو رہے ہیں، حکومت کو دہشت گردی کے خلاف ناکامی ہوئی ہے جو صحیح نہیں ہے، مقامی تعلیمی ادارے کو سیکیورٹی مہیا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے متحد ہونا پڑے گا۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد اتفاق رائے سے فیصلے کئے گئے ، یکجہتی اور اتحاد کو سبو تاژ نہ کیاجائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے اتحاد اور یکجہتی کوبرقرار رکھا جائے،ریاستی اداروں کو تمام اختیارات دیئے گئے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات ختم کیوں نہیں ہوتے، دہشت گردوں کو دہشت گردی سے پہلے پکڑا کیوں نہیں جاتا ، پالیسیوں کو از سر نو جائزہ لینا پڑے گا اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔

سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ ہمارے ملک میں خون بہانا سب سے سستا کام ہے،ہم نے جن لوگوں کے لئے کام کیا تو وہ کہہ رہے ہیں ابھی دہایؤں تک پاکستان میں دہشت گردی جاری رہے گی ، سیاسی ، مذہبی اور عسکری طبقوں نے بیٹھ کر سارے پروگرام کی نظر ثانی کرنا پڑے گی ۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بلیم گیم سے باہر نکل کر کردار اداکرنا ہوگا یہ صوبوں کی جنگ نہیں ریاست کی جنگ ہے ۔

سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ آج خونی دن ہے ، اس کے بنیادی اسباب افغانستان میں مداخلت کرنا ہے جو جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا اور آج تک جاری ہے، پارلیمنٹ کو جب تک اختیار نہیں ملے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا آج پارلیمنٹ بے بس ہے ، دہشت گردی صوبائی سبجیکٹ نہیں ہے، یہ ضرب عضب ،نیشنل ایکشن پلان اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے، قانون کی حکمرانی نہیں ہے، مولانا عبدالعزیز کو پالا جارہاہے ۔

سینیٹر وسیم نے کہا کہ ہمیں خود ہمت کر کے اپنے آپ کو بچانا ہوگا اور لوگوں کو ٹریننگ دینے پڑی گی تاکہ وہ اپنے آپ کو بچا سکیں ۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ ہمارے جگر غم سے نڈھال ہیں یہ اندوہناک واقعہ ہے۔ جب دہشت گرد کامیاب ہوتاہے تو ریاست اور ادارے ناکام ہوتے ہیں اس کا اقرارکرناچاہیے لیکن معروضی حالات کو سیکھناپڑے گا ، دہشت گردی ایک گلوبل عمل بن چکاہے ، افغانستان میں ہر وقت ہنگامہ رہتا ہے اور پاکستان متاثر ہوتاہے ، صوبہ لاکھوں تعلیمی اداروں کو سکیورٹی فراہم کریں گوریلا جنگ کا مقابلہ کریں اور تعلیمی ادارے آسان ہدف ہیں ، ریاست کی جنگ ہے متحد ہوکر لڑنا ہے، اﷲ کے کرم سے کمی آئی ہے، ساراالزام سکیورٹی ایجنسیوں کو نہیں دے سکتے ۔

سینیٹر جہانزیب جماالدین نے کہا کہ ساری قوم کرب میں ہے ، تمام قوم کو اس وقت متحد ہوناچاہیے ۔سینیٹر تنویرالحق نے کہا کہ آج کاواقعہ آرمی پبلک واقعہ سے کم نہیں ہے ۔ سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ اوبامہ کی تقریر پر یہاں بحث ہونی تھی آج باچا خان یونیورسٹی اور جمرود کے واقعات نے اوبامہ کی تقریر صحیح ثابت کر رہے ہیں ، یہ بھی پتاکیا جائے کہ اطلاع سے پہلے سے دی جاتی ہے ، صحیح ہونی ہے یہ افوا ہوتی ہے،آرمی پبلک سکول اور باچاخان یونیورسٹی کی انکوائریاں کرائی جائیں اور شائع کیاجائے ۔

سینیٹر سحرکامران نے کہا کہ ٹیکنااور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سنجیدہ رویہ نہیں ہے ، حکومت کا نیشنل ایکشن پلان میں ایکشن نہیں ہے ، صرف الفاظی ہے اور ایوان کی تضحیک ہے۔ سردار موسیٰ خیل نے کہاکہ جو کچھ ہم نے بویا ہے اسی کو کاٹ رہے ہیں اور جس طرح پالیسیاں بنائی ہیں اس کے نتائج آرہے ہیں اور ریاست ناکام ہوگئی ہے اور دہشت گردوں کی بادشاہی ہے ۔

سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ قوم کو تسلیم دی گئی تھی کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے، عوام کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری دی جائے، نیشنل ایکشن پلان کی سمت درست کی جائے اور دہشت گردوں کو کوئی رعائت نہ دی جائے۔ سینیٹر فرحت اﷲ نے کہا کہ آج کا حملہ پاکستان کے مستقبل پر اسی طرح کا حملہ ہے جس طرح آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا ، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہیں ،یہ ناکامی پالیسیوں کی ہے، جس کے تحت افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ کہتے ہیں، ریاست کی پالیسی یک ناکامی ہوئی ہے، اگر حکومت پارلیمنٹ کی کمیٹی نہیں بناتی تو سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی نیشنل ایکشن پلان کی کارکردگی چیک کر کے ایوان کو رپورٹ دے، اس موقع پر وزیر داخلہ کا موجود نہ ہونا افسوسناک ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ذمہ داری بے نظیر بھٹو شہید نے دکھائی وہ آج نظر نہیں آ رہی، نیشنل ایکشن پلان کا سینیٹ میں جائزہ لینا چاہیے، یہ سینیٹ کی ذمہ داری ہے اور نیشنل ایکشن پلان کو زیر بحث لایا جائے اور عملدرآمد نہ کرنے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ وقت نہیں کہ نا اتفاق کی بات کریں ، قوم کو یکجا ہونا چاہیے اور ایک آواز کے ساتھ مسئلے کے حل کیلئے کوشش کرنی چاہیے، جب روس 1929 میں افغانستان میں آیا تو ہم اس کے خلاف محاذ کا ہراول دستہ بن گئے، ایک دوسرے جنرل نے یوٹرن لے لیا اور اچھے اور برے طالبان بنائے، آج بھی ریاست چند لوگوں کو اپنے اثاثے مانتے ہیں اور ایک لیڈر حکیم اﷲ محسود کے مارے جانے پر باقاعدہ آنسو بہاتے ہیں اور ڈاکٹر عاصم کے خلاف سندھ میں ایکشن لیتے ہیں، نیشنل ایکشن پلان ، (ن)ایکشن پلان ہے، اسلام آباد اور پنجاب دہشت گردوں کا منبع اور پناہ گاہ بن گئے ہیں، سب سے بڑے تین دہشت گرد پنجاب میں موجود ہیں اور نیشنل ایکشن پلان سندھ میں سارا زور دیا جا رہا ہے، ایک لیڈر بیان دیتے ہیں کہ آپ کی ہماری سوچ ایک ہے پنجاب پر حملہ نہ کریں، نیشنل ایکشن پلان پر عمل ایسے لوگ نہیں کر سکتے جو سندھ جانے کیلئے بیمار ہو جائیں، ہم نے پاک بھارت کے تعلقات بہتر کرنے کیلئے وزیراعظم کو خوش آمدید کہا، ایران اور سعودی عرب کے دورے کی تعریف کی ، جبکہ بعض لوگ کہتے تھے کہ اپنے ذاتی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں، آج اگر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر دو آدمی سعودی عرب اور تہران گئے ہیں اگر یہی روایت رہی تو کل ایک آدمی رہ جائے گا۔

نواز شریف کے عمل کی تعریف کرتے ہیں لیکن طریقہ کار نقصان دہ ہے، کبھی 8 آدمی فیصلہ کرتے ہیں اور کبھی 2آدمی فیصلہ کرتے ہیں، وزیراعظم پارلیمنٹ نہیں آتے، وزیراعظم پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو کل دو کی جگہ ایک آدمی رہ جائے گا، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی ہونی چاہیے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نگرانی کرے، فوج کو وسائل دے ، دہشت گردی کو صدیق بلوچ کی ٹریٹ کیا جائے اس نے دو ارب الیکشن میں مانگے تو اس کو اڑھائی ارب دے دیئے، نصاب کو ٹھیک کیا جائے، نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کچھ نہیں ہوا، آئی بی اے کے دہشت گرد دہشت گردی میں پکڑے گئے اور وائرس پھیل رہا ہے اور سارا زہر ہم نے خود گھولا ہوا ہے، جامع انداز سے اس ذہنیت کا مقابلہ کیا جاتا ہے جو بچوں کے سروں میں گولیاں مارتے ہیں۔

سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ ایسا موقع نہیں تھا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار ایک ہفتے سے بیمار ہیں اس کو وجہ نہیں بنائی جائے حکومت پر تنقید کی، اگر اس قسم کے حالات میں جو واقعات رو کے جاتے ہیں وہ سامنے نہیں آتے جو ہو جاتے ہیں وہ سامنے آ جاتے ہیں، سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی اگر کشیدگی بڑھ جائے تو ملک میں ایک پراکسی وار شروع ہو سکتی ہے، پاکستان کی پوزیشن دونوں ممالک کے درمیان ہمدردی کی ہے جس کی پذیرائی ملتی، سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک نے وزیراعظم پذیرائی کی، یہ ایسا موقع نہیں تھا کہ وزیراعظم ترکی یا کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو بھی ساتھ لے کر دونوں ممالک کا دورہ کرتے، دونوں ممالک ے دورے کا اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا اور اس معاملے میں پیش رفت ہوئی ہے، باچا خان یونیورسٹی دہشت گردی کے واقعہ اور حالات کا جائزہ لینے کیلئے تین وفاقی وزراء دورے پر گئے ہیں، دہشت گردوں کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت سرقلم کئے گئے ہیں، یہ اتحاد اور یکجہتی کی وجہ سے کامیابی ملی، پارلیمنٹ کی ایک اور سائیٹ کمیٹی سیکیورٹی کے حوالے سے بنائی جائے اور بحث کا حاصل ہے

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں