غیر قانونی قابضین سے گھر خالی کرانے کیلئے اپنی فورس بنا ئی جارہی ہے ‘اکرم خان درانی

جمعہ 22 جنوری 2016 14:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 جنوری۔2016ء)سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ غیر قانونی قابضین سے گھر خالی کرانے کیلئے اپنی فورس بنا ئی جارہی ہے ‘آفیسرز ہاؤسنگ سکیم کری روڈ اسلام آباد کی رہائشی سکیم کے ٹینڈر جاری ہو چکے ہیں ‘رواں ماہ کے آخر میں افتتاح ہوگا ‘ حج پالیسی 2015ء کے مطابق مفت حج کا کوئی تصور نہیں ‘ ملک میں صنعتوں کے لئے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی، آئی پی پیز کو پیداواری صلاحیت میں اضافے کی ہدایت کی گئی جبکہ ڈپٹی چیئر مین سینٹ نے وزارت قانون و انصاف میں بھرتیوں سے متعلق کوٹہ پر عمل درآمد اور پارلیمانی امور میں کوٹہ کے مطابق بھرتیوں کے حوالے سے معاملہ متعلقہ کمیٹیوں کو بھجوا دیا ۔

جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی نے بتایا کہ آفیسرز ہاؤسنگ سکیم کری روڈ اسلام آباد کی رہائشی سکیم کے ٹینڈر جاری ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اس ماہ کے آخر میں اس سکیم کا افتتاح ہوگا۔ منصوبے میں تاخیر پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں، کوشش کریں گے لاگت میں اضافہ نہ ہو، اگر لاگت میں اضافہ کیا جائے گا تو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن لوگوں کے پلاٹ ہیں ان کے پلاٹوں کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو پلاٹ انہوں نے کم قیمت میں لئے تھے وہ لاکھوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جہاں ٹھیکیدار کی وجہ سے کام میں تاخیر ہوتی ہے وہاں اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ اس سکیم پر کام ٹھیکیدار کی وجہ سے بند نہیں تھا، اس کے بل پاس کرنے کے لئے کنسلٹنٹ ہی موجود نہیں تھا۔ اب سکیموں پر کام میں بہت بہتری آئی ہے جس ادارے میں 7 سال سے مستقل ڈی جی نہیں ہے وہ کیا کام کرے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ رولز میں ترمیم کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو لکھا ہے کیونکہ سینئر گریڈ کے افسر موجود نہیں ہیں۔

ڈیڑھ سال کی کارکردگی کے بارے میں ایوان میں تفصیلی جواب دینا چاہتا ہوں، اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے بھی درخواست کی ہے کہ وقت دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ان کے وزارت سنبھالنے سے قبل فاؤنڈیشن نے 23 ہزار پلاٹ بنائے تھے، اب ڈیڑھ سال میں 65 ہزار کنال زمین حاصل کی ہے۔ پی ایچ اے نے صرف 5 ہزار فلیٹ بنائے تھے جبکہ وزارت سنبھالنے کے بعد سے ڈیڑھ سال میں پانچ ہزار سے زائد فلیٹ بنائے جاچکے ہیں۔

وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے بتایا کہ اسٹیٹ آفس میں پیسے لے کر قبضے دیئے جاتے تھے اور مکانات الاٹ کئے جاتے تھے۔ صرف خالی مکان کے بارے میں بتانے کے 50 ہزار لئے جاتے تھے، میں نے وزارت سنبھالنے کے بعد ساری گندگی صاف کر دی ہے اور سب کو تبدیل کر دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ آفس کے ریکارڈ کو جلا دیا گیا تھا، میں نے ریکارڈ کے لئے لاہور میں حکومتی ادارے سے ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرایا اور سرکاری مکانات اور رہائش گاہوں کی تمام تفصیلات ریکارڈ کیں۔

بڑی بڑی سفارشیں آئیں کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کریں، تاہم حکومت نے کاروائی کی ، اسٹیٹ آفیسر کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کے لئے لکھا لیکن بات نہیں مانی گئی، غیر قانونی قابضین سے گھر خالی کرانے کے لئے اپنی فورس بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جس پولیس افسر یا انتظامی افسر سے گھر خالی کرانے کے لئے مدد لیتے ہیں وہ خود گھر پر قبضہ کر لیتا ہے۔

آئی ایٹ میں جس گھر پر قبضے کی نشاندہی کی گئی ہے اس کو خالی کرایا جائے گا۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے جواب میں وزیر ہاؤسنگ نے بتایا کہ وزیراعظم کو سمری بھیجی گئی جسے انہوں نے منظور کیا اور ہائرنگ میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا۔ جی سکس میں 50، 60 سال سے بنے 90 گھروں کو مسمار کر کے فلیٹ بنانے کا منصوبہ ہے، ان میں 1200 فلیٹس بنائے جائیں گے، پرانے گھروں کو مسمار کر کے نئے فلیٹس تعمیر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 سال سے گھر بنانے پر پابندی ہے۔ ہاؤسنگ میں اضافہ بھی نہیں ہوا تھا، نئے گھروں کی تعمیر پر پابندی ختم کی جائے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ کسی بیماری کی صورت میں حج پر روانہ نہ ہونے پر ان کی جگہ لسٹ کے مطابق دوسرے لوگوں کو بھیجاجاتا ہے ۔ حجاج کو بھیجنے کا یہ عمل قرعہ اندازی کے ذریعے ہوتا ہے، 2015ء میں کوٹہ میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا جبکہ وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے ایوان بالا کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ حج پالیسی 2015ء کے مطابق مفت حج کا کوئی تصور نہیں۔

شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ 2015ء کے حج سیزن کے دوران عملہ کے بعض ارکان کے خلاف شکایات موصول ہوئیں اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ سعودی عرب میں عازمین حج کی رہائش کے لئے عمارتیں کرائے پر لینے کا عمل چھ مہینے پہلے شروع کر دیا جاتا ہے۔ وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف سے ایوان بالا کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ حکومتی سکیم کے تحت 73406 حجاج کے لئے کل 139 عمارات بشمول ویلفیئر عملہ اور فلاحی سرگرمیوں کے لئے 1190 رہائشی اور دیگر جگہ ہائر کی گئی ان میں سے 75 فیصد رہائش مرکزی علاقے اور 25 فیصد رہائش مرکزی علاقے کے باہر سے حاصل کی گئی۔

مکہ میں 139 عمارات کے لئے مالکان کو 13 کروڑ 17 لاکھ 2 ہزار 50 سعودی ریال ادا کئے گئے۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے بتایا کہ پاور پلانٹس کی تعمیر و مرمت کی جاتی ہے جس سے پیداواری یونٹوں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس وقت ہماری بجلی کی پیداواری صلاحیت 9590 میگاواٹ ہے جبکہ طلب 13 ہزار میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کئی بجلی گھروں کو گیس سے جلانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔

کول پاور پلانٹ منصوبہ ماحول دوست منصوبہ ہے، حکومت بجلی بحران پر قابو پانے کے لئے متبادل توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ ایل این جی منصوبوں سے 3600 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ صنعتوں کے لئے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی ، بجلی گھر منصوبوں کی ری گریڈنگ سے اربوں روپے کی بچت ہوئی ہے ‘ آئی پی پیز کو اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی ہدایت کی ہے۔

اجلاس کے دور ان ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری نے وزارت قانون و انصاف میں بھرتیوں سے متعلق کوٹہ پر عمل درآمد اور وزارت پارلیمانی امور میں کوٹہ کے مطابق بھرتیوں کے حوالے سے معاملہ متعلقہ کمیٹیوں کو بھجوا دیا وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر آغا شہباز درانی، سینیٹر عثمان کاکڑ، سینیٹر اعظم سواتی اور سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر مشہدی کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے موسمی تغیرات زاہد حامد نے کہا کہ حکومت وفاقی وزارت قانون و انصاف میں میرٹ پر بھرتیاں کر رہی ہے۔

بلوچستان کا کوٹہ 3.5 فیصد تھا جو بڑھا کر 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے لئے کوٹہ پر عمل کیا جا رہا ہے تاہم یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل میں بھی فاٹا اور بلوچستان سمیت تمام علاقوں کے کوٹہ پر عمل کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پے اسکیل ایک سے چار تک مقامی سطح پر بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ میں روز سوال آتا ہے کہ صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بعض علاقوں سے بھرتیوں کے عمل میں زیادتی کی جا رہی ہے۔

اس معاملے کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔اجلاس کے دور ان سینیٹر آغا شہباز خان درانی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ وزارت پارلیمانی امور کے ملازمین کی تعداد 112 ہے۔ وزارت پارلیمانی امور کے پرائم منسٹر پبلک افیئرز اور گورننس ونگ کے ملازمین کی تعداد 57 ہے۔

انہوں نے کہاکہ کوٹہ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور اگر ارکان کو اعتراض ہے تو بے شک اس سوال کو کمیٹی کو بھجوا دیا جائے وہاں تفصیلی جواب اور تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ ڈپٹی چیئرمین نے یہ سوال بھی متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ اگر جعلی ڈومیسائل بنائے جاتے ہیں تو یہ متعلقہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے کو رکوائے۔

بلوچستان کا کوٹہ اسی لئے بڑھایا گیا ہے تاکہ ان کو زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔ سینیٹر مشاہد الله خان نے کہا کہ اگر کسی صوبے سے زیادتی ہو رہی ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہئے لیکن دیکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ سوال کرنے والوں کے اپنے دور میں جو بھرتیاں کی گئیں، ان میں کوٹے کا خیال نہیں رکھا گیا اور آج سوال کر رہے ہیں کہ ہمارے دور میں تو کوئی خاص بھرتیاں ہوئی ہی نہیں، اس لئے یہ تفصیل بھی سامنے آنی چاہئے کہ کس کے دور میں یہ بھرتیاں ہوئیں ڈپٹی چیئر مین نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں