عبدالحمید ڈوگر کیس :درخواست سماعت کیلئے منظور

سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس سے تحقیقات کرنے کیخلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے موجود ہیں،تین نومبر کی ایمر جنسی کا مجرم پرویز مشرف ہیں،عدالت فریقین نے باہمی رضامندی سے مقدمے کو اتنا ٹیڑھا کر دیا ہے کہ اس کو سیدھا کرنے کے لئے بھی فریقین کی رضامندی درکار ہو گی،جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے ریمارکس

بدھ 27 جنوری 2016 17:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی جانب سے سنگین غداری مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف کی ساتھی ملزم قرار دینے اور تحقیقات کے خلاف دائر درخواست اور (اہم ڈاکومنٹس کو عدالتی ریکارڈ کا ) حصہ بنانے کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے اور سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی ہے کہ اس کو فروری کے آخری ہفتے میں سماعت کے لئے مقرر کیا جائے جبکہ عدالت نے عبدالحمید ڈوگر سے تحقیقات کرنے کے خلاف کسی بھی قسم کا حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ معاملات ابھی ابتدائی سطح پر ہیں ۔

تحقیقات کو نہیں روک سکتے تاہم سپریم کورٹ سمیت اعلی عدلیہ کے فیصلے موجود ہیں کہ جن میں اکیلے پرویز مشرف کو ہی تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا مجرم قرار دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے سنگین غداری مقدمے میں پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے عدالتی ٹرائل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مقدمے کے حوالے سے پڑھ کر ششدر رہ گئے ہیں کہ فریقین نے باہمی رضامندی سے مقدمے کو اتنا ٹیڑھا کر دیا ہے کہ اس کو سیدھا کرنے کے لئے بھی فریقین کی رضامندی درکار ہو گی ۔

تین نومبر 2007 کی ا یمرجنسی جن سے ہم خود بھی گزر کر آئے ہیں اس کی تحقیقات میں اتنی تاخیر کر دی گئی ہے کہ اب ہم یہ تاریخ بھی بھول بیٹھے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت 20 کروڑ عوام کے خلاف تحقیقات کرانے کا اختیار رکھتی ہو مگر درخواست گزار چاہتے ہیں کہ ان کو اس سے استثنیٰ دیا جائے ۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود غداری مقدمے کا ٹرائل تک شروع نہیں ہو سکا انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔

عبدالحمید ڈوگر کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ 11 اپیلیں نمٹا دی گئیں ہیں مگر آپ کا تو ٹرائل بھی شروع نہیں کیا جا سکا ہے لگتا ہے کہ یہ سب آپ کی مرضی سے کیا گیا ہے ۔ ہائی کورٹ نے سب کی رضامندی سے تفتیش کی طرف چلے گئے ٹرائل کورٹ ( خصوصی عدالت ) میں گئے انہوں نے فیصلہ دیا آپ پھر عدالت عالیہ چلے گئے ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ پہلے درخواست حکومت نے دائر کی تھی وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی تحقیقات کرائے ۔

میرے خلاف نام کے ساتھ تحقیق کرانا غیر قانونی ہے میرے خلاف کوئی شواہد ہی نہیں ہے اگر حکومت محسوس کرتی ہے کہ آئین شکنی مقدمے کی مزید تحقیق کی ضرورت ہے تو ضرور کرے ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ آپ کے حوالے سے ایک معاملہ کالعدم قرار دے دیا تھا اب تو صرف تحقیقات کرنے کا کہا گیا ہے ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ اس حوالے سے مجھے ریلیف نہیں دیا گیا ۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ میں مقدمہ پڑھتا گیا ہوں اور ششدر رہ گیا ہوں ۔ حکومت ہر شخص کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے ۔ 21 نومبر 2014 کو خصوصی عدالت نے آرڈر میں تین افراد پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے ان کو شریک ملزمان کے طور پر تحقیقات کا حکم دیا تھا اور انہیں شریک ملزم قرار نہیں دیا تھا ۔ کیا آپ کو کوئی استثنیٰ حاصل ہے کہ آپ کے خلاف تحقیقات نہیں کی جا سکتیں ۔

آپ نے اس حکم کو چیلنج نہیں کیا تھا ۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ آپ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہمارے پاس چیلنج نہیں کیا تھا ہائی کورٹ میں تو تمام لوگوں نے اس حوالے سے رضامندی ظاہر کی تھی اور بیانات بھی ریکارڈ کئے گئے تھے ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ میرا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا ۔ پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ شوکت عزیز کا کہا گیا ہے کہ وہ دبئی میں آ کر بیان ریکارڈ کرائیں گے آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے خلاف تحقیقات
نہیں ہونی چاہئے ۔

افتخار گیلانی نے کہا کہ فیصلے میں میرا نام لے کر تحقیقات کا جو حکم دیا ہے اس کے خلاف یہاں آیا ہوں ۔ اٹارنی جنرل نے زاہد حامد کے حوالے سے بتایا کہ ان کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے ۔ا فتخار گیلانی نے کہا کہ وفاقی حکومت تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے یہ ٹرائل کورٹ کا اختیار نہیں ہے اس وقت بھی ہم نے ٹرائل کورت سے کہا تھا کہ ہمارا نام اس فیصلے سے مٹایا جائے ۔

بعدازاں خصوصی عدالت نے ہمارا نام شامل کر دیا ۔ایف آئی اے اپنے قواعد و ضوابط سے باہر نہیں جا سکتی اور نہ ہی غیر قانونی طریقے سے بیانات ریکارڈ کر سکتی ہے جب عدالت نے پہلا آرڈر جاری کیا تو ہمارے خلاف کالعدم قرار دیا گیا مگر بعدازاں خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں ہمارا نام شامل کر دیا ۔ فریقین نے باہمی رضامندی سے دوبارہ تحقیقات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا دوبارہ تحقیقات کا مطلب یہ نہیں کہ مذکورہ تین افراد سے ہی تحقیقات ہوں گی ۔

جرل طور پر تحقیقات ہونی چاہئے ۔ عدالت نے کہا کہ وہ تو آپ کو صفائی دینے کا موقع دے رہے ہیں ۔ا فتخار گیلانی نے کہا کہ ٹرائل تک معاملہ میں بھی ہمیں گھسیٹا جائے گا ۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہ آپ نے خود ہی چیپٹر بند کر دیا تھا کہ دوبارہ تحقیقات میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کو تحقیقات میں شامل نہ کیا جائے ۔ 20 کروڑ افراد کو تو شامل تحقیقات کیا جا سکتا ہے ۔

کیا آپ کو نہیں کیا جا سکتا ۔ عدالت نے کہا تھا کہ بیانات ریکارڈ کرنے کا کہا گیا تھا اس میں بے توقیری کی کیا بات ہے ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ ایسی باتیں بھی کی گئی ہیں کہ بیان نہیں کر سکتے۔ عدالت نے کہا کہ جو آرڈر کالعدم قرار دے دیا گیا اس کو تو آپ نے چیلنج ہی نہیں کیا آپ تو مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ۔ پھر نام ڈالنے کی بات ہے تو اس میں کسی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔

افتخار گیلانی نے کہا کہ میرے خلاف کیا مواد ہے کہ جس کے بارے میں مجھ سے سوالات پوچھے جائیں گے ۔عدالت نے کہا کہ آپ سے یہی تو بات پوچھنی ہے اور مواد اکٹھا کیا جاتا ہے اصل معاملہ سامنے آنا ہے آپ آرڈر کو چیلنج کرتے تو پھر بات ہوتی ۔ تازہ ترین تحقیقات کے خلاف بات ہی نہیں کی ہے اور نہ ہی یہاں آئے ہیں آپ دوبارہ ہائی کورٹ میں بھی نہیں گئے ۔

ہمارے سامنے دو راستے ہیں ہم دور سے یہ مقدمہ دیکھ رہے ہیں یہ ہماری تاریخ کا منفرد کیس ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ایک ٹرائل 342 کے بیان کی سطح تک پہنچ چکا تھا اب کہاں پہنچ گیا ہے؟ ابھی یہ مقدمہ ہمارے پاس نہیں آیا ۔ تفتیشی افسر نے تو تحقیقی مواد اکٹھا کرنا ہے اس کے پاس پہلے سے مواد موجود نہیں ہوتا ۔ تفتیشی افسر نے آپ سے پوچھ کر چلی جائے گی ۔

مواد ہو گا تو تحقیقات ہو گی اگر خصوصی عدالت کو اختیار نہیں تھا تو آپ ہمارے پاس آ جاتے ہم قانون کو سیدھا کر دیتے ۔ ہم حیران رہ گئے کہ تمام لوگوں کی رضامندی نے مشرف کیس کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ آپ نے حکم چیلنج نہیں کیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں آپ یہ چاہتے ہیں جنرل مں صرف جنرل ہی آئے گا اور جنرل ہی تحقیقات ہوں گی ۔ آپ یہاں تاخیر سے آئے ہیں اس کا ایک اور راستہ ہے سارے باہمی رضامندی سے ہمارے پاس آ جائیں تو ہم یہ کی سیدھا کر دیتے ہیں اب پھر سب کا امتحان شروع ہو جائے گا اور مشکل سے جس نے یہ معاملہ ٹیڑھا کیا ہے اسے اس کو سیدھا کرنے میں اور بھی مشکلات ہوں گی۔

افتخار گیلانی نے کہا کہ وجوہات قانون نہیں ہوتا ۔ عدالت نے کہا کہ ایٹ لارج میں کیا آپ نہیں آتے ۔ تحقیقات کے حوالے سے آپ کا موقف غلط ہے ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ عدالت کا مقصد یہ تھا یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ ، تمام ججز سب کے حوالے سے تحقیقات ہوں اس پر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ اس سے رجسٹر سیدھا ہو جائے تو کیا اچھا نہ ہوتا اگر آپ تحقیقات کو غلط قرار دیتے تو ہم معاملہ دیکھتے مگر آپ نے تو اس پر رضامندی ظاہر کر دی تھی اب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام نہ لکھا جائے چلو ہم کہہ دیتے ہیں کہ آپ سے تحقیقات کی جائیں نام نہ لکھا جائے ملزم تو آپ ابھی نہیں ہے ۔

افتخار گیلانی نے کہا کہ انہوں نے تو مجھے مجرم بنا دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میرے خلاف ان کے پاس تحقیقات کے لئے مواد موجود ہے عدالت نے کہا کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آپ کے خلاف کوئی مواد موجود نہیں
ہے مقصد کہنے کا یہ تھا کہ تحقیقات میں کچھ بھی سامنے آ سکتا ہے آپ سے تفتیش کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کے خلاف مواد ہو تو آپ سے تحقیق کی جائے ۔

پولیس قوانین کے تحت ایک تھانیدار کسی کو طلبی کا حکمنامہ بھیجے تو جس کو بھیجا گیا ہے اسے اس کی تعمیل کرنا پڑے گی بصورت دیگر وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جائیں گے ۔ انگریزی کے ٹیسٹ پر ہم یہ کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ چلو ریاست سے پوچھ لیتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ وفاق کی ہدایات تو نہیں مل سکی ہیں مگر بطور اے جی بات کروں گا ۔

تین افراد کے نام چالان میں ڈلوائے گئے تھے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا ایک گراؤنڈ یہ تھا کہ آرٹیکل 10-A کے تحت شفاف ٹرائل ضروری ہے ۔ پہلے تحقیق کی جائے پھر نام ڈالہ جائے ۔ وفاقی حکومت نے بیان دیا جس میں تمام لوگوں نے رضامندی کا اظہار کیا اور دوبارہ تفتیش کا حکم دیا گیا ۔تحقیقات ہی ہونا ہیں اور اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔ پرویز مشرف ، شوکت عزیز ، زاہد حامد اور عبدالحمید ڈوگر کے بیانات ریکارڈ کرنے کا حکم دیا گیا ۔

میرا خیال یہ ہے کہ اس کا مقصد غلط پیغام دینا نہیں ہے اس کا مقصد آزادانہ تحقیقات کرانا ہے اور یہی حکم سپریم کورٹ نے بھی دیا تھا ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ایک طرف انہوں نے تحقیقات کرانے میں رضامندی اور دوسری جانب خود کو استثنیٰ دلانا چاہتے ہیں آپ کا کیا بیان ہے ؟ اس پر اے جی نے کہا کہ وہ ابھی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ تحقیقات میں پراگرس رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے آپ اس ابتدائی سٹیج پر ہماری مداخلت چاہتے ہیں یا کچھ اور چاہتے ہیں ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ تحقیقات کی جا سکتی ہیں مگر ان کی طرف سے عجیب سی دھمکی آمیز رویہ نظر آتا ہے اور مجھے اصل ملزم کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف اصل ملزم ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے دیگر تین لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا ۔

چیف جسٹس کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے حوالے سے خصوصی عدالت ریمارکس دے رہی ہے اور ان کے خالف جرم ثابت بھی نہیں ہوا ۔ اگر خصوصی عدالت کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو اس کو واضح کرے میں وفاقی حکومت کو نہیں روک رہا ۔اس کا تو یہ مطلب ہے کہ مجھے غلط طریقے سے چیف جسٹس بنایا گیا اور میں نے بطور چیف جسٹس کام کر کے کوئی جرم کیا ہے ۔

ججز کو ترقی ان کے قانون کے مطابق دی جاتی ہے ۔40 سال کا میرا تجربہ ہے کہ ججز بہرحال جج ہوتا ہے عدالت نے کہا کہ آپ کا یہ مقدمہ نظرثانی کا بنتا ہے ہم کہہ دیتے ہیں کہ سارا معاملہ تحقیقاتی افسر پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کیا تحقیق کرتا ہے آپ نے دوبارہ ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج نہیں کیا ۔آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سارا ملبہ آپ کے اوپر کیوں ڈالا جا رہا ہے ۔

افتخار گیلانی نے کہا کہ خصوصی عدالت نے پہلا فیصلہ 21 نومبر 2014 اور دوسرا 27 نومبر 2015 کو جاری کیا۔ عدالت نے آپس میں مشاورت کی اور فیصلہ لکھواتا ہوا کہا کہ عبدالحمید ڈوگر کی درخواست پر فیصلہ میں کہا کہ خصوصی عدالت نے ٹرائل میں ان کو غداری کیس میں ملزم قرار دیا ۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس معاملے کو کالعدم قرار دیا جس کو خصوصی عدالت نے دوبارہ سے ڈوگر کو اس مقدمے میں تحقیقات کرنے کا حکم دیا ۔

اس حوالہ سے ہائی کورٹ نے آرڈر 11 دسمبر 2015 کو درخواست خارج کر دی تھی ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی مواد نہیں تھا تو پھر اس مقدمے میں ان کو کیوں شامل کیا گیا۔دلائل میں وکیل کا موقف ہے کہ اس عدالت کے بہت فیصلے ہیں ہائی کورٹ نے بھی فیصلے دے رکھے ہیں کہ جنرل ( ر ) پرویز مشرف اکیلا ہی ایمرجنسی لگانے کا عزم ہے جو تین نومبر 2007 کو لگائی گئی اس معاملات سے گزر کر آتے ہیں تب بھی یہ تاریخ ہمیں بھلا دی گئی ہے ۔

فاضل وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی میٹریل موجود نہیں ہے یہ درخواست بھی سماعت کے لئے منظور کی جاتی ہے اور اسے فروری کے آخری ہفتے میں سماعت کے لئے مقرر کی جاتی ہے تحقیقات نہیں روکی جائیں گی ۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ آپ نے لاطینی زبان مین خود لکھا ہے کہ جب حقائق واضح ہوں اور قانون مبہم ہو تو فیصلہ کیسے کیا جائے ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں