اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے پارلیمانی داخلہ سیکیورٹی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا

شہیدبھٹو فاؤنڈیشن کے زیراہتمام نیشنل ایکشن پلان بارے منعقدہ سیمینار سے شیری رحمان ، افراسیاب خٹک،حیدر عباس رضوی اور دیگر کا خطاب

جمعرات 28 جنوری 2016 22:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 جنوری۔2016ء) اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے پارلیمانی داخلہ سیکیورٹی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی سابق ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے تحفے ہیں،نیشنل ایکشن پلان درحقیقت جناح اور ضیاء الحق کے پاکستان کے درمیان جنگ ہے،دہشت گردی کیخلاف نیشنل ایکشن پلان نو ایکشن پلان بن چکا، پنجاب میں کوئی ایکشن پلان نہیں, طالبان سمیت کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک آج بھی کام کررہاہے،حکومت نیپ پر عمل کرنے میں ناکام ہوگئی , ایک مرتب پھر تمام جماعتوں کو بیٹھنے کی ضرورت ہے کی ،آج بھی پرانی افغان پالیسی جاری ہے، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے وہ دہشت گردی کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں،کا لعدم تنظیمیں نئے نام سے کام کر رہی ہیں حکومت سرچھپائے بیٹھی ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے ڈکلیئر دہشتگرد پنجاب میں دندناتے پھر رہے ہیں،کالعدم تنظیم نے کراچی سے 9 نشستیں جیتی ہیں،کالعدم تنظیم نے نیپ کے ہوتے ہوئے کس طرح الیکشن لڑا، ملک میں انتہا پسندی جیسے کینسرکی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے،ہمیں پہلے کینسر کو ختم کرنا ہوگا جس کی دوا نیشنل ایکشن پلان میں تھی ،ہم نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ نہی بنانا چاہتے،بلکہ اس پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں کیو نکہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں،کچھ خفیہ ہاتھ بھی اس کی ناکامی کا سبب ہیں،قوم کہتی ہے ہم جنازے دے چکے اب حکمران سیاستدان بھی کچھ کریں،قوم دہشتگردی کے مرض سے نجات کیلئے پورے ملک میں آپریشن کے لئے تیار ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو شہیدبھٹو فاؤنڈیشن کے زیراہتمام نیشنل ایکشن پلان پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔سیمینار میں اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک ،ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی،پیپلز پارٹی کی نائب صدر رشیری رحمن اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر فر حت اﷲ بابر سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی ۔سیمینار سے اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی کا کینسر ہے، انتہا پسندی کی وجہ سے ہی دہشت گردی ہو رہی ہے،ہمیں پہلے کینسر کو ختم کرنا ہوگا جس کی دوا نیشنل ایکشن پلان میں تھی،اس ملک میں دہشت گردی اور انت انتہاء پسندی سابق ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے تحفے ہیں،اس ملک میں مدرسے پہلے بھی موجود تھے لیکن جہاد کے نام افغان جنگ میں استعمال کیا, ایک عرصے تک ہم ماننے کیلیے تیار نہیں تھے کہ یہاں دہشت گرد موجود ہیں, ایک عرصے تک تردید کرتے رہے ،سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا لیکن آج تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا, یہ نو ایکشن پلان بن چکا، مدرسہ ریفارمز ہوئیں ناہی نیکٹا فعال ہوا, پنجاب میں کوئی ایکشن پلان نہیں, طالبان سمیت کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک آج بھی کام کررہاہے،حکومت نیپ پر عمل کرنے میں ناکام ہوگئی , ایک مرتب پھر تمام جماعتوں کو بیٹھنے کی ضرورتہے کیوں یہپلان ناکامی سے دوچار ہے,آج بھی پرانی افغان پالیسی جاری ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے وہ دہشت گردی کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں, حکمران کیوں خوف کا شکار ہے۔

ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سرکاری پلان نہیں ہے، یہ سب پارٹیوں کا پلان ہے،نیپ قومی ایکشن پلان ہے،دہشت گردی کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کے عوام پو چھنے کا حق رکھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے،پاکستان کو انتہا پسندی کا کینسر ہوگیا ہے، ہمیں علامات کا نہیں مرض کا علاج کرنا ہے،نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ نہیں بنارہے ،جس کے بچوں کامستقبل اس وطن سے وابستہ ہے وہ چاہتا ہے کے نیپ پر مکمل عملدرآمد ہو،کالعدم تنظیم نے کراچی سے 9 نشستیں جیتی ہیں،کالعدم تنظیم نے نیپ کے ہوتے ہوئے کس طرح الیکشن لڑا، حیدر عباس رضوی نے کہا کہ بتایا جائے کہ قومی ایکشن پلان ہے یا حکومت کا ایکشن پلان ہے،عوام کا جمہوری حق ہے کہ حکومت عوام کو کارکردگی پر اعتماد میں لے،ملک میں انتہا پسندی کا کینسر ہے، انتہا پسندی کی وجہ سے ہی دہشت گردی ہو رہی ہے،ہمیں پہلے کینسر کو ختم کرنا ہوگا جس کی دوا نیشنل ایکشن پلان میں تھی انہوں نے کہا کہ حکومت وقت سے پوچھنا ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل ہوا، ہم نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ نہی بنانا چاہتے،بلکہ اس پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں کیو نکہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہی۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فر حت اﷲ بابر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں بنیادی نکات میں اہم نکتہ تھا کہ کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کی جائے گی لیکن کیا ایسا کیا گیا حالانکہ سکول و یونیورسٹیاں بند کردی گئیں،پارلیمنٹ میں کالعدم تنظیموں کے بارے سوال آیا تو جواب آیا کہ 61 کالعدم ہیں لیکن معلوم نہیں وہ کام کررہی ہیں یا نہیں, نئے ناموں بارے بھی صوبوں سے پوچھ کر بتایئنگے,مرکزی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کو اس حوالے سے علم تک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیکٹا ایک قانون کے مطابق معرض وجود میں آیا, قانون کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہر تین ماہ بعد ضروری تھی لیکن ایک سال کے بعد بھی اس کا اجلاس نہیں بلایا گیا،نیکٹا کے سروسز رولز بنائے گئے نہ ہی اس کو بلڈنگ دی گئی،ملٹری کورٹس بنادی گئیں لیکن 350 سے زائد پھانسیاں دی گئیں لیکن معلوم نہیں بلیک جیٹ دہشت گرد کتنیہیں،ٹوئٹ پر پھانسیوں کی اطلاعات ملتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اگر پٹھان کوٹ میں جو تنظیم ملوث پائی گئی اس کے خلاف کارروائی کی جائیگی, لیکن مظفرآباد میں ایک تنظیم نے ا اعلان کر دیا۔لیکن حکومت نے اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت ناکام ہوگئیہے،اب سوال اٹھتاہے کہ کون ان کالعدم تنظیموں کے پیچھے ہے ۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی طرف سے خطوط کے بعد جماعت الدعوہ بارے عدالتی حکم سینیٹ میں پیش کیا گیا کہ جس تنظیم کے خلاف وزارت داخلہ کا نوٹس تک نہیں جاری کیا گیا اس کو کیسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے،مولانا عبدالعزیز کی ایف آئی آر کے اندراج تک میں مبہم بیانات کا سہارا لیا جا رہا ہے،سوچنے کی بات ہے کہ کیوں سیاسی حکومت اس پلان میں ناکام ہوگئیہے،موجودہ حکومت دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے,کچھ خفیہہاتھ بھی اس کی ناکامی کا سبب ہ ہیں،ایوان کی پارلیمانی داخلہ سیکیورٹی کمیٹی بنانے کی ضرورتہے جو نیشنل ایکشن پلان کا جایزہ لے ، انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان صرف حکومت کا پلان نہیں ہے پور ی قوم کا پلان ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے ڈکلیئر دہشتگرد پنجاب میں دندناتے پھر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی نے سوات سے دہشتگردوں کا صفایا کیا،ہمارے دور میں ضرب عضب کرنے کو کوئی تیار نہیں تھا،نیشنل ایکشن پلان درحقیقت جناح اور ضیاء الحق کے پاکستان کے درمیان جنگ ہے،مذہب اور دہشتگردی کے نام پر استحصال ہمیں نامنظور ہے،کیا جنگ ایسے لڑی جاتی ہے جیسے حکومت لڑ رہی ہے،حکومت قومی بیانیہ جاری کرے تاکہ عوام کو حوصلے بلند رہیں،ایوان میں وزراء اور حکومتی اراکین کی حاضری تک نہیں ہوتی، درباروں اور بند کمروں میں فیصلے کرنے کا وقت گذر گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹرشیری رحمن نے کہا کہ ن لیگ ایکشن پلان پر کام ہورہا ہے لیکن قومی ایکشن پالان پہ کام کب ہوگا،ہمارے بچوں اور پاکستان کا مستقبل نیشنل ایکشن پلان سے وابستہ ہے،قوم کہتی ہے ہم جنازے دے چکے اب حکمران سیاستدان بھی کچھ کریں،قوم دہشتگردی کے مرض سے نجات کے لئے پورے ملک میں آپریشن کے لئے تیار ہے،شہداء اے پی ایس اور چارسدہ کی مائیں کہتی ہیں کہ جوڈیشل انکوائری کیوں نہیں ہوئی،وزیراعظم کیوں چارسدہ نہیں گئے, بتایا جائے کہ کسی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے،یہ وہ جمہور نہیں ہے جس کے لئے بینظیر نے شہادت قبول کی، مفاہمت حکومت کا کام ہوتا ہے اپوزیشن کا نہیں،حکومت کو آئینی قوائد کے مطابق چلنا ہوگا،کا لعدم تنظیمیں نئے نام سے کام کر رہی ہیں حکومت سرچھپائے بیٹھی ہے،پنجاب میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نظر نہیں آرہا

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں