حکومت نے پی آئی اے پر لازمی سروسز ایکٹ 1952نافذ کر دیا

(آج) صبح 7 بجے تک ڈیڈ لائن دے رکھی ہے ٗاحتجاج ہمارا حق ، پر امن رہیں گے ٗجمہوری دور میں قانون ہماری تحریک نہیں روک سکتا ٗ سربراہ ایکشن کمیٹی کٹیشن کیلئے نہیں مذاکرات کرنے کے لیے تیارہیں ٗمشاہد اﷲ خان

پیر 1 فروری 2016 20:14

اسلام آباد/کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم فروری۔2016ء) حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) پر لازمی سروسز ایکٹ 1952 نافذ کردیا ہے جس کے تحت پی آئی اے میں یونینز کی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہوجائے گی۔ پیر کو قومی ایئر لائن پر یہ ایکٹ 6 ماہ کے لیے نافذ کیا گیا، جس کی منظوری وزیراعظم نواز شریف نے دی۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ 1952 چھ ماہ کیلئے لاگو کیا جائے گا ذرائع کے مطابق سول ایوی ایشن ڈویڑن کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو لازمی سروس ایکٹ نافذ کرنے کیلئے سمری بھجوائی گئی تھی جسے منظور کیا گیا ٗلازمی سروس ایکٹ لاگو کے تحت ملازمین کی ہڑتال غیر قانونی ہے اور اس دوران کوئی بھی ملازم غیر حاضر نہیں رہ سکتا جبکہ سروس پر حاضر نہ ہونے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کیساتھ ساتھ ان کو نوکریوں سے بھی فارغ کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

حکومتی فیصلے کے بعد پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس فیصلے کے بعد کس قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں گی، لیکن ہم اپنے پلان کے مطابق چلیں گے اور اگر اس کی وجہ سے ہم پر لاٹھی چارج یا ڈنڈے برسائے گئے تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں ٗسہیل بلوچ نے کہا کہ ہم نے کل (منگل) کی صبح 7 بجے تک ڈیڈ لائن دے رکھی ہے ٗاحتجاج ہمارا حق اور ہم پر امن رہیں گے، لیکن اگر حکومت مذاکرات کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں جمہوری دور میں یہ قانون ہماری تحریک نہیں روک سکتا ۔

دوسری جانب سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہاہے کہ پی آئی اے بند ہونے سے مسافر پریشان ہوں گے،سینیٹر مشاہداﷲ نے کہاکہ ڈکٹیشن کیلئے نہیں مذاکرات کرنے کے لیے تیارہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کردیا ہے ٗساتھ ہی انھوں نے ادارے کے ملازمین سے احتجاج ختم کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔

سینیٹر مشاہد اﷲ خان کے مطابق ملازمین کی جانب سے پی آئی اے کے دفاتر کو بند کرنے کے نتیجے میں حکومت کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ نہ ہی پی آئی اے کی نجکاری ہونے جارہی ہے، نہ ہی اس ادارے کے ملازمین کی مراعات لی جارہی ہیں اور نہ ہی انھیں نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔مشاہد اﷲ خان نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے کہا کہ وہ احتجاج ختم کرکے کام کو بحال کریں اور اگر پی آئی اے ملازمین نے احتجاج ختم نہیں کیا تو حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضروری سروسز ایکٹ کو نافذ کرسکتی ہے۔

حکومت کی جانب سے دی گئی اس دھمکی کے باوجود پی آئی اے ملازمین کا ادارے کی نجکاری کے خلاف احتجاج جاری رہابعدا ازاں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے پی آئی اے ملازمین کے احتجاج کے اثرات کا جائزہ لیا۔پی آئی اے ترجمان کے مطابق اجلاس کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ احتجاج کے باعث شہری مشکلات کا شکار ہیں جبکہ ادارے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

اجلاس کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایسی صورت حال میں ملک کا نام بدنام ہورہا ہے اور اس کی ساکھ متاثر ہورہی ہے، جس پر اجلاس کے شرکاء نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کی صورت حال کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی آئی اے یونین اور ایسوسی ایشنز کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوا جائیگا اور اگر احتجاج ختم نہ کیا گیا تو ادارے کو حکومت کی جانب سے ضروری سروسز کا حصہ قرار دے دیا جائیگا۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں