سینیٹ کی خصوصی کمیٹی موسمیاتی تبدیلی نے کاپ 21کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے اخراجات کی تفصیلات طلب کر لیں

موسمی اثرات سے متاثرہ ممالک میں پچھلے سال پاکستان کا نمبر دسواں تھا جو آٹھویں نمبر پر آگیا ہے ، موسمیاتی تبدیلی سے معلق بین الا اقوامی کانفرنس میں 100ارب ڈالر سالانہ کے فنڈز ترقی پذیر ممالک کیلئے رکھے گئے ہیں ، رواں سال کے آخر تک پاکستان میں 700ملین سے ایک ارب ڈالر تک گرین کلائیمیٹ فنڈ استعمال ہو گا ،150 ممالک کے درمیان سو ارب ڈالر کی تقسیم نہایت کم ہے ،وفاقی وزیر زاہد حامد کی کمیٹی کو بریفنگ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی کے لیے کوئی حل نہیں ،سیکرٹری وزارت ماحولیاتی تغیر

بدھ 3 فروری 2016 18:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔03 فروری۔2016ء) سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں کمیٹی نے کاپ 21کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کی تفصیلات اور اخراجات کی بھی تفصیلات طلب کر لیں ، اجلاس میں سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے انکشاف کیا کہ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی کے لیے کوئی حل نہیں ، وزیر زاہد حامد نے آگاہ کیا کہ موسمی اثرات سے متاثرہ ممالک میں پچھلے سال پاکستان کا نمبر دسواں تھا جو آٹھویں نمبر پر آگیا ہے ۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بین الا اقوامی کانفرنس میں 100ارب ڈالر سالانہ کے فنڈز ترقی پذیر ممالک کیلئے رکھے گئے ہیں ۔اس سال کے آخر تک پاکستان میں 700ملین سے ایک ارب ڈالر تک گرین کلائیمیٹ فنڈ استعمال ہو گا۔150 ممالک کے درمیان سو ارب ڈالر کی تقسیم نہایت کم ہے ،وزیر زاہدحامد نے آگاہ کیا کہ سٹون کرشنگ پنجاب کے علاقے میں ہے۔

(جاری ہے)

اسلام آباد میں اینٹوں کے بھٹوں اور کرش مشینوں پر پابندی ہے ۔

فیکٹو سیمنٹ کا معاملہ عدالتی ہے اور آگاہ کیا کہ 1997کے ایکٹ کے مطابق تحفظات ایجنسی موجود ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بھی ایجنسیاں بنا رہے ہیں، سینٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ پاکستان نے عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرس میں صیح نما یندگی کیوں نہیں کی،وزارت نے اء این ڈی سی سب ملکوں سے آخر میں جمع کیوں کروایا۔سینیٹ خصوصی کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں پائیدار ترقی کے اہداف پر عمل اور سی او پی 21پیرس کانفرنس میں پاکستان کی شمولیت کے ایجنڈے پر تفصیلی بحث کی گئی ۔

کمیٹی کا اجلاس سینیٹر احمد حسن کی صدارت میں منعقد ہوا۔کمیٹی اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی میں ایس ڈی جی ایس کی تکنیکی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے او رکمیٹی کا ہدف بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہے۔حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کے پروٹوکول میں شامل ہیں معاہدے کا مقصدآب و ہوا میں گرین ہاؤس گیس کو مستحکم رکھنا ہے تاکہ انسانی زندگی پر اثرات کم ہوں۔

پیرس کانفرنس30نومبر سے 11دسمبر2015کے گیارھویں اجلاس میں 150سربراہ مملکت شامل تھے۔پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر نے کی اور وفد نے وزارت خارجہ،صوبائی نمائندوں، سول سوسائٹی اور تعلیم اداروں کے ماہرین شامل تھے۔پیرس مععاہد کامقصد بین الا اقوامی نقظہ نظر میں موسمیاتی تبدیلی کی عکاسی ہے ۔ترقی پذیر ممالک کیلئے بھی کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر خاص توجہ دی جائے اور تمام ممالک کو حق دیا گیا ہے کہ اقتصادی ترقی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے انتظامات بھی کرے۔

پاکستان نے اپنے نقطہ نظر میں ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی کی موثر منتقلی اور ترقی پذیر ممالک کو شفاف انداز میں فنڈز کی فراہمی کی تجاویز دی ہیں۔معاہدے میں فنڈز کی فراہمی کیلئے کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔لیکن آرٹیکل 9کے مطابق ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو فنڈز کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔کمیٹی اجلاس میں سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اﷲ نے پیرس کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے آئی این ڈی سیز جمع نہ کرانے پر وفاقی وزیر زاہد حامد سے سوال اٹھایا کہ 200ممالک نے آئی این ڈی سیز جمع کرائی پاکستان جمع کرانے میں کیوں ناکام رہا اور کہا کہ چین اور بھارت 70,70فیصد کی سطح پر ہونے کے باوجود اپنے ورکنگ پیپرز آخری وقت میں جمع کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔

پاکستان 0.8فیصد پر ہونے کے باوجود اپنی رپورٹ جمع نہ کر اسکا جس پر وفاقی وزیرنے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگلے چند ماہ میں درست اعداد و شمار کے ساتھ تفصیلات جمع کرا دینگے،جس پر سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ ایک متعین مدت میں ہی آئی این ڈی سیز جمع کرائے جا سکتے تھے اب کانفرنس منعقد کرانے والے تسلیم نہیں کرینگے ۔وفاقی وزیر باور کرائیں کہ سی او پی 21پیرس کانفرنس کی باتیں سالوں سے وہ رہی تھیں اور جنوری 2015سے تیاریاں بھی تھیں۔

وزارت کیوں بروقت ای این ڈی سیز جمع نہ کرا سکیں۔سینیٹرنہال ہاشمی نے سوال اٹھایاکہ پیرس کانفرنس میں کتنے افراد کا وفد شامل تھا کیا ہداف حاصل کئے گئے جس پر آگاہ کیا گیاکہ 25افراد پر مشتمل وفد پیرس گیا سوائے وزیر کے تمام اخراجات سپانسرڈ تھے ۔حکومت کا کوئی خرچ نہیں آیا ،نہال ہاشمی نے کہاکہ اگلے اجلاس مین پیرس کانفرنس کی مکمل تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔

سینیٹر لیفٹنٹ جنرل (ر) عبدا لقیوم نے کہا کہ چکوال میں پہاڑوں کو کاٹ کر سیمنٹ فیکٹریاں لگائی گئی ہیں ماحول پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں دھول اور گرد کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں فیکٹری مالکان نے گاریبیج سینیٹر قائم کر لئے ہیں۔30ہزار ٹن روزانہ گاربیج نکلتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کو خط لکھا ہے وزارت پابندی لگائے کہ کسی بھی فیکٹری کے قیام سے قبل نیشنل انوائرمنٹ سٹینڈرڈز کی سرٹیفیکیشن ضروری ہو۔

جس پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے آگاہ کیا کہ نیشنل انوائرمنٹ سٹینڈرڈ کا ملک بھر میں اطلاق ہے ۔ہر نئے منصوبے کے بننے سے پہلے ماحولیا ت کے اثرات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔سینیٹر ثمینہ عابد نے اسلام آباد کے گردونواح میں کرش مشینوں ،سیمنٹ فیکٹرویں ،اینٹوں کے بھٹوں،ایف نائن پارک میں گرد سٹیشن کے این او سی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اسلام آباد سے 50سالہ پرانے درخت بھی کاٹ لئے گئے ہیں وزیر زاہدحامد نے آگاہ کیا کہ سٹون کرشنگ پنجاب کے علاقے میں ہے۔

اسلام آباد میں اینٹوں کے بھٹوں اور کرش مشینوں پر پابندی ہے ۔ فیکٹو سیمنٹ کا معاملہ عدالتی ہے اور آگاہ کیا کہ 1997کے ایکٹ کے مطابق تحفظات ایجنسی موجود ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بھی ایجنسیاں بنا رہے ہیں ۔وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی ایکش پلان بنایاجا رہا ہے جس میں جنگلات کی کٹائی ،نئے درختوں کی اگائی،وائلڈ لائف کے تحفظ کے حوالے سے قومی جنگلات پالیسی بھی بنائی جائیگی۔

سیکرٹری وزارت عارف خان نے آگاہ کیا کہ ریڈ کریسنٹ پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رضوان کے ساتھ ملکر 152اضلاع میں 5لاکھ لوگوں پر مشتمل رضا کارانہ فورس بنائی جا رہی ہے۔جو نرسریاں بنانے ،پودے لگانے درختوں کی حفاظت کی رضا کار وں کی ؤفور س ہو گی۔سینیٹر نزہت صادق نے گرل گائڈ پاکستان کی ایک لاکھ طالبات کی رضا کارانہ خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ بوائز سکائٹس کو بھی اس مہم کا حصہ بنایا جائے ۔

سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ جاپان کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے کثیر فنڈز موجود ہیں صوبے فنڈز نہیں لے رہے اور کہا کہ صوبوں کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی کے اہم مسئلے پر قابل عمل لائحہ عمل بنایا جائے۔وفاقی وزیر زاہد حامد نے آگاہ کیا کہ موسمی اثرات سے متاثرہ ممالک میں پچھلے سال پاکستان کا نمبر دسواں تھا جو آٹھویں نمبر پر آگیا ہے ۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بین الا اقوامی کانفرنس میں 100ارب ڈالر سالانہ کے فنڈز ترقی پذیر ممالک کیلئے رکھے گئے ہیں ۔اس سال کے آخر تک پاکستان میں 700ملین سے ایک ارب ڈالر تک گرین کلائیمیٹ فنڈ استعمال ہو گا۔150 ممالک کے درمیان سو ارب ڈالر کی تقسیم نہایت کم ہے ۔سیکرٹری وزارت نے کہا کہ درجہ حرارت بڑھنے کے نقصانات، ماہرین کی کمی، استعدا د کار ،صلاحیت اور مہارت میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں بہتری کیلئے پوری کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ذیادہ کامیابیاں ابھی حاصل نہیں ہو رہیں۔

سیکرٹری نے مزید آگاہ کیا کہ پاکستان کے67فیصد علاقوں میں سینیٹیشن اور 87فیصد علاقوں میں پینے کے پانی کی سہولیات موجود ہیں ۔سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلوں اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے آگاہی مہم کی ضرورت ہے جس پر عمل کر کے عوام کو برے اثرات سے آگاہ رکھا جا سکتا ہے۔آج کے اجلاس میں وفاقی وزیر موسمی تبدیلی زاہد حامد سینیٹرز مشاہد اﷲ خان ،لیفٹنٹ جنرل (ر) عبد القیوم،ثمینہ عابد،نزہت صادق،ستارہ ایاز ،نہال ہاشمی،گل بشرہ،کے علاوہ سیکرٹری وزارت عارف عظیم اور اعلی حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں