کپاس کی فصل پر انحصار کرنے والے لاکھوں کاشتکار مالی مشکلات کا شکار

کپاس کی کمی پوری کرنے کیلئے چار ارب ڈالر درآمد کرنا ہو گی،میاں زاہد حسین

جمعرات 11 فروری 2016 13:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 فروری۔2016ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کی فصل کی تباہی سے اس پر انحصار کرنے والے لاکھوں کاشتکار مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ کمی درامدکے زریعے پوری کی جائے گی جس پر کم از کم چار ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا جس سے ادائیگیوں کا توازن خراب اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا۔

فصل کی تباہی سے ٹیکسٹائل کا شعبہ مشکلات کا شکار ہو گیا ہے جس سے برامدات مزید گریں گی جبکہ جی ڈی پی کی شرح نمو میں ایک فیصدکی کمی متوقع ہے۔ حکومت اس شعبہ کی مشکلات دور کرنے کیلئے جامع منصوبہ بنائے۔ سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین جو بزنس مین پینل کے فرسٹ وائس چےئر مین بھی ہیں نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ کپاس اور ٹیکسٹائل کی برامد سے سالانہ بارہ ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں جبکہ جی ڈی پی میں 8.5 فیصد رکھنے والا یہ شعبہ چالیس فیصد افراد کو روزگار بھی فراہم کر رہا ہے اسلئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

کپاس کی فصل کی تباہی کی وجوہات میں غیر معیاری بیجوں کا استعمال، بے وقت کی بارشیں،بعض علاقوں میں خشک سالی، مداخل کی قیمتوں میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ، جعلی زرعی ادویات کی بھرمار اور بین الاقوامی منڈی کے منفی حالات شامل ہیں جس سے کاشتکاروں کی دلچسپی اور زیر کاشت رقبہ کم ہو گیا ہے اور اسکے نتیجہ میں 15.49 ملین گانٹھوں کے ٹارگٹ کے مقابلہ میں پیداوار 10.85 ملین گانٹھ رہ گئی ہے۔

پیداوار میں 4.64 ملین گانٹھ کی کمی کی بڑی وجہ جنیاتی طور پر تبدیل شدہ مہنگے غیرملکی بیج جنھیں سنڈیوں وغیرہ کے حملوں سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا مدافعت میں ناکام رہے جبکہ سنڈیوں کے خاتمہ کیلئے ادویہ اور سپرے وغیرہ مقامی مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں جو زرعی ماہرین کے مقامی علم و دانش پر عدم اعتماد اور ملٹی نیشنلز سے ہر قیمت پر کاروبار کرنے کو ترجیح دینے کا نتیجہ ہے۔ اگر اس ضمن میں فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان سے دنیا کے چوتھے بڑے کاٹن پروڈیوسر کا اعزاز چھن سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں