حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں کمی کا سارا فائدہ عوام تک پہنچایا اور کوئی پیسہ نہیں بنایا، تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ کمی پاکستان نے کی’پاکستان نے کی اور پٹرول کی قیمت میں 41روپے کی کمی کی

وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کاسینیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی بارے بحث سمیٹتے ہوئے خطاب

جمعہ 12 فروری 2016 14:34

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں کمی کا سارا فائدہ عوام تک پہنچایا اور کوئی پیسہ نہیں بنایا، تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ کمی پاکستان نے کی’پاکستان نے کی اور پٹرول کی قیمت میں 41روپے کی کمی کی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 فروری۔2016ء) وفاقی وزیربرائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت نے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا سارا فائدہ عوام تک پہنچایا اور کوئی پیسہ نہیں بنایا، تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ کمی پاکستان نے کی اور پٹرول کی قیمت میں 41روپے کی کمی کی، برینٹ کی قیمت جب 112ڈالر فی بیرل تھی تو حکومت اس وقت فی لیٹر 25روپے 78پیسے کماتی تھی اور آج آئل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 35ڈالر فی بیرل کے قریب ہے تو حکومت 25روپے 59پیسے فی لیٹر کما رہی ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان کو ٹیکس کی مد میں کم پیسے وصول ہوئے، یہ تاثر غلط ہے کہ گیس پائپ لائن کیلئے 101ارب کا ٹیکس لگایا جا رہا ہے، ماضی کی حکومتیں یہ کام کرلیتیں تو ہمارا کام آسان ہوتا، توانائی کے بحران کا بنیادی حل گیس میں ہی ہے، گیس انفراسٹرکچر میں 600ارب کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، جی آئی ڈی سی کا بڑا حصہ پچھلی حکومت کھا چکی ہے، قطر سے ایل این جی کا سب سے سستا معاہدہ کیا ہے، بھارت نے بھی قطر سے ایل این جی درآمد کر رہا ہے لیکن اس کی قیمت پاکستان سے زیادہ ہے، ایل این جی کی درآمد سے 2ارب سالانہ کی بچت ہو گی، ایل این جی ایران گیس پائپ لائن اور تاپی سے سستی ہو گی۔

(جاری ہے)

وہ سینیٹ کے اجلاس میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے فوائد سے عوام کو محروم کرنے اور 101ارب کے اضافی ٹیکس کے حوالے سے بحث سمیٹ رہے تھے۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت براہ راست ٹیکسوں پر توجہ نہیں دے رہی اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے، حکومت کا قطر سے ایل این جی کا معاہدہ مستقبل میں اس کے خلاف ریفرنس بنے گا، حکومت نے 15سالوں کیلئے معیشت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے ہیں، عوام کے ٹیکسوں سے کمپنیوں کے اثاثے بنانا غیر قانونی ہے، معاہدہ کے منفی اثرات مستقبل کی حکومتیں بھگتیں گی۔

سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ پاکستان نے آئل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا فائدہ پاکستان کو پہنچایا اور تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ پٹرول کی قیمتیں پاکستان نے کمی کیں، گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قطر کے ساتھ ایل این جی اور تاپی گیس منصوبہ پر کام کیا جا رہا ہے، توانائی کی کمی ک پورا کرنے کیلئے تمام ذرائع کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ حکومت حق حکمرانی کھو چکی ہے، یہ قوم کی امانت کی خیانت کر رہے ہیں، حکومت میں سنجیدگی کا فقدان ہے اور اہلیت کا بھی فقدان ہے، براہ راست ٹیکس قوم کے ساتھ مذاق ہے، نا انصافی ہے۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ اس پر اتفاق ہے کہ غربت کم کی جائے لیکن ایسا نہ ہو کہ بات جا کر غریب کو ختم کرنے پر نہ ہو، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور توانائی کی کمی سے ملک بری طرح متاثر ہے، پاکستان میں خاندانی نظام جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے، ادھر غریب مر رہا ہے اور ادھر شادیوں کی بات ہو رہی ہے اور سترہ لڑکیوں کے انٹرویو کئے گئے ہیں پتا کریں کہ میرا ان میں ہے یہ نہیں، سب پارٹیاں حکومت میں ہیں، کوئی صوبے میں کوئی وفاق میں لیکن تنقید کرے عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے، اعداد و شمار کے مطابق 3کروڑ کلو گوشت گدھا کا ہم نے کھایا۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جو بھی ٹیکس اکٹھا کیا ہے قومی خزانہ میں کیا ہے اور ترقی کیلئے خرچ کیا جا رہا ہے، ایف بی آر سے جا کر پتا کریں کس کی جیبوں میں جا رہا ہے، حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کر کے عوام کو فائدہ پہنچایا۔سینیٹر غوث بخش نیازی نے کہا کہ حکومت کا احتساب عوام پر چھوڑ دیا جائے حکومت کی جیسی کارکردگی ہو گی اسی طرح الیکشن میں ووٹ ملیں گے، سب پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں، ملک بہتری کی جانب جا رہا ہے، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیا جا رہا ہے، سینیٹ سے صوبائیت کی بو نہیں ہونی چاہیے۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سینیٹ کی حال کی دیواروں پر ترس آتا ہے جس نے کروڑوں الفاظ اور تقریریں سنی ہیں بچاری گونگی ہیں، حکومت اسی طرح گونگی ہے،101 بلین کے جو نئے ٹیکس لگائے ہیں عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سال میں ایک دفعہ ٹیکس لگتا ہے، اجتماعی فیصلوں میں کبھی بھی عام عوام کے فائدہے کے فیصلہ نہیں کئے جاتے لیکن یہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، اس حکومت کو بہت اچھی اپوزیشن ملی، حکومت اور اپوزیشن مل کر اجتماعی بہتری کے فیصلہ کرتے یا پھر سی سی آئی کا اجلاس بلا کر فیصلہ کرتے، دو ذمہ دار اداروں نے کہا کہ حالات بہتر نہیں ہوئے ابھی انتظارکرنا ہو گا، ہم سمجھتے تھے کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک سال گزر گیا اچھی خبر ملے گی، پاکستان کے موجودہ سسٹم میں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں پر خرچ کیا جاتا ہے، حقائق کو جاننے کیلئے ”ٹروتھ کمیشن“ بنائے جو تمام معاملات میں اصل حقیقت سے آگاہ کرے، کراچی میں ہلاک ہونے والے پی آئی اے کے ملازمین کے حوالے سے حکومت بھی کہت یہے بڑا ظلم ہوا اور اپوزیشن بھی کہتی ہے کہ ظلم ہوا لیکن بتایا جائے کہ ظلم کس نے کیا۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ایوان میں حکومت کو تجاویز دی جاتی ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی، حکومت براہ رسات پر توجہ نہیں دے رہی اور بلا واسطہ ٹیکس لگا رہی ہے، حکومت نے براہ راست کا رحجان ہی پیدا نہیں کیا اور نہ ہی حکمرانوں نے انکم ٹیکس کو اہمیت نہیں دیتے، یہ زیرو انکم ٹیکس دینے والے حکمران ہیں ، حکمران براہ راست ٹیکس خود بھی دیں اور امیروں سے بھی لیں، ٹیکس نیٹ بڑھائیں، وزیر خزانہ زیادہ وقت بیرون ملک رہتے ہیں وہ اس وقت مسکراتے ہیں جب بیرونی قرضہ لیتے ہیں اور 5000ارب کا قرضہ لے کر آنے والی نسلوں کو مقروض بنا رہے ہیں۔

حکومت اور وزیر پٹرولیم کے خلاف ریفرنس تیار ہونا چاہیے کیوں کہ ایل این جی کا معاہدہ قطر کی حکومت سے کیا لیکن کوئی ٹینڈر جاری کیا، کیاایران اس سے سستی ایل این جی نہیں دے سکتا تھا؟ کیا روس ایل این جی کی مارکیٹ میں نہیں تھا؟ کیا 15سال میں برنٹ قیمت یہی رہے گی؟ اگر برینٹ کی قیمت دو یا تین سال میں قیمت بڑھ گئی تو پھر کیا ہو گا؟ وزیراعظم کو جا کر ٹھیکہ پر دستخط کرنے کی کیا ضروری تھی؟، اس ڈیل سے قومی خزانہ کو نقصان ہو گا، دور15سالوں کیلئے معیشت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے، ایران نے پائئپ لائن بنا دی تھی اس سے لینا چاہیے تھی، قطر ، سعودی کیمپ میں ہیاور اب دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں آ گیا، حکومتنے غلط فیصلہ کرلیا ہے، یہ معاہدہ اگر پیپلز پارٹی کے وزراء نے کیا ہوتا تو اب تک جیل میں ہوتے، گیس کی پائپ لائن کمپنی بنائے گی اور اپنی ملکیت بنائے گی، لیکن پیسہ ٹیکس کے ذریعے عوام سے لے گی یہ حکومت کے خلاف ریفرنس بنے گا مستقبل میں، اب لگتا ہے حکومت ایران سے گیس نہیں لے گی کیوں کہ قطر سعودی کیمپ میں ہے، اس سے حکومت نے ڈیل کی اور سیف الرحمان نے کرائی اور بغیر ٹینڈر کے ڈیل پیپرا رول کی خلاف ورزی ہے، آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت سی سی آئی کے سامنے معاہدہ کو پیش کر کے منظور نہیں کیا ، یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، کمپنی کے اثاثہ جات لوگوں کے ٹیکسوں سے بنائے جائیں گے، حکومت کا اس معاہدہ پر کڑا احتساب ہو گا اور وکیل ڈھونڈتے پھریں گے، پاکستان کو پندرہ سال کیلئے پابند کر دیا، جب قیمت کوئی مستقل فکس نہیں کی، غیر مستقل قیمت پر کوئی بھی معاہدہ ٹھوس نہیں ہو سکتا، فوراً سی سی آئی کی میٹنگ بلاء یجائے، پائپ لائن کیلئے ٹیکس غیر قانونی ہے، معاہدہ کے مضر اثرات بعد کی حکومتیں بھگتیں گی، براہ راست ٹیکس کو ترجیحی دی جائے۔

وفاقی وزیر پر پٹرولیم و شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں 120 ڈالر سے برینٹ 30ڈالر تک آیا، پٹرول کی قیمت ایک چوتھائی ہونے کی بات کی جا رہی ہے، پٹرول کی براہ راست برینٹ میں آدھا حصہ ہوتا ہے اور پٹرول کی قیمت آدھی کی جا سکتی ہے، دنیا میں سب سے کم قیمت تیل درآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان میں ہے، بھارت میں 100روپے لٹر ہے، بنگلہ دیش میں 130روپے لٹر ہے، پاکستان میں 71روپے لٹر ہے، اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے، دنیا کا اوسط 100روپے لٹر ہے،112ڈالر فی بیرل تھا تو حکومت 25روپے 78پیسے کما رہی تھی، 2016 میں 35ڈالر فی بیرل ہے پٹرول کی قیمت 71روپے ہے، حکومت آج 25روپے 59روپے فی لٹر کما رہی ہے، 4روپے سے زیادہ کمی کی حکومت نے پاکستان کے عوام کو فائدہ پہنچایا، وزیراعظم نے تمام ریلیف عوام کو منتقل کرالیاہے، دنیا کی حکومتیں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس سے اپنی آمدن بناتی ہیں جو ملک پٹرول برآمد کر رہے ہیں وہاں یہ بھی پٹرول 40روپے میں نہیں ملتا، یہاں تجاویز دی جا رہ یہیں کہ پٹرول کی قیمت 40روپے کی جائے، عالمی قیمتیں گرنے سے ٹیکسوں کی وصولی میں نقصان ہی ہوا، کوئی فائدہ نہیں ہوا، یہ تاثر ہے کہ 101 ارب کا ٹیکس لگا دیا گیا ہے، یة غلط ہے140ارب کی گیس پائپ لائن بنائی جا رہی ہے، پچھلی حکومتیں اگر یہ کام کرلیتیں تو ہمارا کام آسان ہوتا، ایک پیسہ کا کام نہیں کیا گیا، کوئی گیس کا بندوبست نہیں کیا گیا اور نہ پائپ لائن لگائی گئی، پاکستان کی توانائی کا بحران کا بنیادی حل ہی گیس میں ہے،پاکستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنا ہے تو گیس کے مسائل کو حل کرنا ہے، ریفرنس بنانا ہے تو میں حاضر ہوں اور بغیر وکیلوں کے اپنا کیس لڑوں گا، ریفرنس ان پر بنائیں جنہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔

ایک پیسہ کا جبوجھ گیس کے صارف پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ اوگرا نے کہا کہ 34فیصد گیس بڑھائیں ہم نے ایک فیصد گیس نہیں بڑھائی تنقید کرنا آسان ہے، یہ گورنمنٹ توانائی کا بحران حل کرے گی اور بحران آج کا پیدا نہیں ہوا پچھلی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے، گیس کے انفراسٹرکچر 600 ارب کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، جی آئی ڈی سی کا بڑا حصہ پچھلی حکومتیں کھا پی چکی ہیں اور کاغذوں کی حد تک موجود ہے، یہ پہلا کنٹریکٹ ہے،5کنٹریکٹ مزید کریں گے، گیس اس معاہدہ کے تحت آئے گی ہمیشہ فرنس آئل سے سستی ہو گی، پہلے ٹرمینل میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ نقصان ہوا، پاور پلانٹ ڈیزل پر چلاتے تھے پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔

ایل این جی کو پاور پلانٹ میں استعمال کرنے سے ایک ارب ڈالر کا سالانہ فائدہ ہو گا، پیپلز پارٹی کی حکومت یہی معاہدہ دو فیصد زیادہ پر کر رہی تھی لیکن نہیں ہوا، ایران کے ساتھ ہمارے سابق صدر نے جا کر افتتاح کیا نہ پائپ لائن تھی نہ کوئی انفراسٹرکچر، ایل این جی اس منصوبے سے سستی ہو گی، ایل این جی کی قیمت ایران گیس پائپ لائن اور تاپی سے سستی ہو گی اور یہ توانائی بحران کیلئے گیم چینجر ہو گی، ایل این جی صنعت نے کہا کہ پاکستان نے بہترین معاہدہ کیا، بھارت نے بھی معاہدہ کیا، اس سے پاکستان کی قیمت کم ہے، سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے ممالک پر الزام لگاتے ہیں،پر ہم اپنے آمدن بھی بتائے اور بجلی کے بل بھی لگائے ساری صوورتحال واضح ہو گی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں