قتل مقدمات کیس:دہشت گردی کی دفعات عائد کرنے سے متعلق 3 درخواستیں خارج

فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل دہشت گردی میں شمار ہوگا،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس

پیر 15 فروری 2016 16:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔15 فروری۔2016ء) سپریم کورٹ میں قتل کے مقدمات میں انسداد دہشتگردی کی دفعات عائد کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران تین درخواستیں خارج کر دیں۔جبکہ چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہاہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک قتل بھی دہشتگردی میں شمار ہوگا،کسی کی اگر ذاتی دشمنی یا عناد ہے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اْس پر دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔

جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ذاتی دشمنی میں کیا گیا ارتکاب جرم دہشتگردی نہیں،جب تک عام عوام متاثر نہ ہوں، دہشتگردی کی دفعات نہیں لگ سکتیں،انسداد دہشتگردی ایکٹ سے متعلق قلم اٹھاتے وقت جج کو سوچنا ہوگا، گر ذاتی عناد نہیں مگر ملزم کا مقصد دہشت پھیلانا ہے تو یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

(جاری ہے)

جب ملزم اعتراف کر لے کہ اْس نے قتل ذاتی عناد کے باعث کیا تو یہ مقدمہ ٹرائل کورٹ میں چلے گا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نہیں۔

ذاتی مفاد کے قتل میں انسداد دہشتگردی عدالت کا اختیار نہیں کہ وہ کیس سْنے۔انھوں نے یہ ریمارکس پیرکے روزدیے ہیں چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بیچ نے مقدمے کی سماعت کی ملزم طارق حاکم کی طرف سے اعتزاز احسن وکیل پیش ہوئے اور انھوں نے موقف اختیار کیاکہ کس کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا دہشتگردی نہیں،قتل کی ہر واردات سے خوف و حراس پھیلتا ہے، دہشتگردی کی عدالتوں سے ذاتی دشمنی کے مقدمات کا بوجھ ختم کیا جائے،طالبان طرز کی کارروائیاں دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہیں،جس پر سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے سمیت چار افراد کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت بھجوادیاہے اسے ہدایت کی ہے کہ انسداد دہشتگردی کے عدالت جلد بنیادوں پر کیس نپٹائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ میں چلانے کا حکم دیا تھاسپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں