نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے خلاف ضابطہ اربوں روپے کی اراضی خریدی،اس سے سرکاری خزانے کو 42کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام کا انکشاف

تحقیقاتی رپورٹ میں9ملازمین کو ذمہ دار قراردیاگیاہے، یگزیکٹو ڈائریکٹر فنانس این آئی سی ایل چیئرمین بی او ڈی این آئی سی ایل ایک کروڑ60لاکھ روپے کا نادہندہ ہے ،اسے پہلے بورڈ کاممبرپھرچیئرمین بنا دیا گیا ،جنید چوہدری کا انکشاف

بدھ 17 فروری 2016 20:37

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا ہے کہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے خلاف ضابطہ اور پیپراقوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کی اراضی خریدی جس سے سرکاری خزانے کو 42کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا، ایگزیکٹو ڈائریکٹر فنانس این آئی سی ایل نے بتایاکہ تحقیقاتی رپورٹ میں9ملازمین کو ذمہ دار قراردیاگیاہے، سیکرٹری تجارت شہزاد ارباب نے کمیٹی کو بتایاکہ زمین کی مالیت نیسپاک نے 562ملین لگائی تھی، 8چیک ڈس آنر ہوگئے جس پر ایف آئی آر بھی موجود ہیں، کمیٹی اجلاس میں رکن کمیٹی جنید انوار چوہدری نے انکشاف کیا کہ این آئی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین 1کروڑ60لاکھ روپے کا نادہندہ ہے اور نادہندہ شخص کو پہلے بورڈ کاممبر بنایاگیا بعد میں چیئرمین تقرر کردیاگیا سیکرٹری تجارت نے جواب دیا کہ اسٹیٹ بنک سے اس حوالے سے جواب طلب کیاگیاہے ، ایس ای سی پی کے فیصلے کے بعد چیئرمین کی تقرری کی گئی ، این آئی سی ایل خلاف ضابطہ زمین خریدنے کا اعتراف سیکرٹری تجارت نے کمیٹی کے سامنے کیا، ایڈوائزر خزانہ ڈویژن نے کہا کہ این آئی سی ایل میں اراضی کی خرید اور دیگر معاملات کی محکمانہ تحقیقات نہیں کی گئیں جسکی وجہ سے شکوک وشہبات پائے گئے تمام معاملات اور تحقیقات کا دوبارہ جائزہ لیاجائے، اس میں تو پورا محکمہ ملوث ہے،کمیٹی نے وزرات کو لبرٹی ہاؤس دوبئی کی موجودہ حالت اور کرایے کے حوالے سے 3ماہ میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کریں ، اراضی معاملے کی دوبارہ محکمانہ تحقیقات کی بھی ہدایت کردی۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے نیشنل انشورنس کمپنی کی مالی سال2008-10کے آڈٹ اعتراضات کمیٹی کے سامنے پیش کیے۔ آڈٹ اعتراضات میں این آئی سی ایل میں خلاف ضابطہ اور پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اراضی خریدنے کا انکشاف کیا گیا، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ زمین خریدنے سے پہلے زمین کے مالک محسن حبیب وڑائچ کو 25فیصد حصہ دیا، این آئی سی ایل نے دوبارہ جب زمین قیمت لگائی اسکی قیمت کم لگائی گئی جسکے بعد محسن وڑائچ نے 80ملین روپے واپس کیے، جبکہ مذکورہ شخص پہلے زمین کا مالک نہیں تھا بعد میں یہ زمین اس شخص کے نام پر ہوئی ، اسوقت کے چیئرمین این آئی سی ایل ایاز نیازی نے خفیہ طور پر معاملات محسن حبیب وڑائچ کے ساتھ طے کیے، انکوائری رپورٹ میں 9ملازمین کو ذمہ دار ٹہرایا گیا تھا ، ان مین سے دو کا انتقال ہوگیا، کمیٹی رکن شیخ رشیدنے کہا کہ یہ بھی مرجائیں گے کیونکہ یہاں جومرنے کے قریب ہوتا ہے ان کے خلاف تحقیقات ہوتی ہیں نیب بھی یہی کررہاہے ، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پیسے وصول ہونے چاہیے اس بے ضابطگی کا ذمہ دارپورا محکمہ ہے تین بچیوں کی زمین ہبہ کے نام لی گئی انکوائری کمیٹی نے صرف پانچ لوگوں کو جیل بھیج کر معطل کر دیا ، پورے محکمے کے خلاف کارروائی کی جائے ، خزانہ ڈویژن کا حکام نے بتایاکہ پہلے ہم سے کہا گیا کہ تحقیقاتی آفیسر نہیں ہے ہم نے گریڈ 21کاآفیسر دیدیا مگر ان تمام معاملات کا دوبارہ جائز ہ لیاجائے اور اسکی تحقیقات ہونی چاہیے، اس میں پورامحکمہ ملوث ہے نیب حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ ایازنیازی اور دیگر لوگ ضمانت پر موجود ہیں مگران کا ٹرائل ہورہاہے محسن حبیب وڑائچ لندن بھاگ گیاجب وہ گرفتار ہوگا تو ریکوری ہوجائیگی کمیٹی نے این آئی سی ایل حکام کو کیس کی پیروی کی بھی ہدایت کی ، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ این آئی سی ایل نے دبئی میں لبرٹی ہاؤس کی خریداری کی جس میں غیر قانونی طور پر ایک ارب 60 کروڑ 99 لاکھ کی ادائیگی کی گئی، جس پر محکمہ نے کسی قسم کی کوئی انکوائری نہیں کی ، کیس نیب کو بھی بھیجا گیا، کمیٹی اس معاملے پر لبرٹی ہاؤس کی موجودہ مالیت اور کرائے کے تعین کے حوالے سے 3 ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔

آڈٹ حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ایل سی نے پیرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھوٹے اخباروں کو اشتہار زمین کی خرید کے اشتہار دیئے اور 487ملین کی زائد ادائیگی کر کے زمین خریدی، بڑے اخباروں کو اشتہار اس لئے نہیں دیا کہ زیادہ لوگ بولی میں شریک ہوں گے۔ کمیٹی رکن عارف علوی نے کہا کہ محکمانہ تحقیقات جب تک نہیں ہوں گی تب تک معاملات میں شبہات موجود رہیں گے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ صرف چار لوگوں کو بے قاعدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا غلط بات ہے ، کمیٹی کے سامنے غلط کو صحیح ثابت نہ کیا جائے، جنرل منیجر ریئل اسٹیٹ جو کہ سربراہ ہے اسے کیوں محکمانہ انکوائری میں ذمہ دار قرار ہی نہیں دیا جا رہا ہے، اس معزز کمیٹی کے سامنے غلط بیانی سے احتراز کریں۔

کمیٹی رکن شیخ رشید نے کہا کہ اگر اتنے پیسے کھانے کے بعد معطل ہونا کونسی بڑی بات ہے، کمیٹی رکن عارف علوی نے پی اے سی سیکرٹریٹ سے شکوہ کیا کہ جب 480 ارب کے گردشی قرضوں کے حوالے سے پی اے سی میں جب بات ہوئی مجھے اطلاع ہی نہیں دی گئی اور مجھے رپورٹ بھی نہیں پہنچائی گئی، کمیٹی رکن سید کاظم علی شاہ نے بھی شکوہ کیا کہ انہیں کمیٹی اجلاس کی اطلاع ہی نہیں دی گئی

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں