کراچی ، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے احتجاج کے دوران گورنر ہاؤس کا فوارہ چوک میدان جنگ بن گیا

منتشر کرنے کیلئے واٹرکینن کا استعمال ،پولیس نے احتجاج کرنیوالے 25سے زائد اساتذہ کو حراست میں لیکر قریبی تھانے منتقل کردیا

بدھ 25 نومبر 2015 19:11

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔25 نومبر۔2015ء) اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے احتجاج کے دوران گورنر ہاؤس کا فوارہ چوک میدان جنگ بن گیا ۔ پولیس نے اساتذہ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف جانے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج اورشیلنگ کی اور اساتذہ کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کے ذریعے پانی پھینکا گیا ۔

پولیس نے احتجاج کرنیوالے 25سے زائد اساتذہ کو حراست میں لے کر قریبی تھانے منتقل کیا ۔ تاہم پولیس کی مار کھانے کے باوجود اساتذہ رکاوٹ توڑتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں دھرنا دیا ۔ دھرنے کے باعث اطراف کی شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام ہو گیا ۔ تفصیلات کے مطابق پرائمری اسکول ٹیچر ایسوسی ایشن کے رہنماؤں اور اساتذہ کی بڑی تعداد بدھ کو کراچی پریس کلب کے باہر جمع ہو گئی ۔

(جاری ہے)

اساتذہ نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے اساتذہ کو گورنر ہاؤس فوارہ چوک پر روک دیا ۔ اس دوران پولیس نے مذاکرات کے ذریعہ اساتذہ کو ریڈ زون کی خلاف ورزی سے روکا تاہم اساتذہ نے پولیس کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور گورنر ہاؤس کی سڑک سے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی ۔ پولیس اساتذہ کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی ، جس کی وجہ سے فوارہ چوک کا علاقہ میدان جنگ بن گیا ۔

اساتذہ اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں ۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے 25 سے زائد اساتذہ کو حراست میں لے کر قریبی تھانے منتقل کیا ۔ تاہم اساتذہ پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پہنچ گئے اور وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ۔ تنظیم کے ر ہنماؤں سکندر جتوئی ، لیاقت ڈاہری اور انتظار شلگری اور دیگر نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے بائیو میٹرک نظام کے ذریعہ اساتذہ کی شناخت کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے ، اس سے اساتذہ کی تذلیل کی جا رہی ہے اور ان کو گھوسٹ قرار دے کر سیکڑوں اساتذہ کی تنخواہوں کو روک دیا گیا ہے ، جس سے اساتذہ اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ محکمہ تعلیم کے افسران سے انتظامی اختیارات واپس لے کر اسسٹنٹ کمشنرز کو تقویض کر دیئے گئے ہیں ، جس سے اندرون سندھ میں تعلیمی نظام تباہ ہو گیا ہے اور تعلیمی تباہی کے ذمہ دار سیکرٹری تعلیم فضل اﷲ پیچوہو ہیں ۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ سیکرٹری تعلیم کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے اور جن اساتذہ کی تنخواہیں روکی گئی ہیں ، وہ ادا کی جائیں اور انتظامی اختیارات واپس محکمہ تعلیم کے افسران کو دیئے جائیں ۔ ان رہنماؤں نے واضح کیا کہ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے ، ہمارا احتجاج جاری رہے گا ۔ پولیس کی لاٹھی چارج سے کئی اساتذہ زخمی بھی ہوئے ۔ احتجاج کے باعث فوارہ چوک ، شاہین کمپلیکس ، پی آئی ڈی سی چوک اور اطراف میں ٹریفک جام ہو گیا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں ۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں