پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی روایت پر چلنے والامعاشرہ ہے ۔ جہاں مذہبی اقدار و احکامات کی پیروی کی جاتی ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان

اسلامی نقطہ نظر سے دیناوی امور میں ان لوگوں سے گہری مذہبی و اخلاقی توقعات وابستہ کی گئی ہیں جو قانون کے شعبہ سے منسلک ہے اس لیے ہم سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اخلاقی اور پیشہ وارانہ اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں،جسٹس انورظہیرجمالی کا شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کے زیر اہتمام انٹر نیشنل کانفرنس آن لیگل ایجوکیشن 2015کے موضوع پر خطاب

جمعہ 4 دسمبر 2015 23:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔04 دسمبر۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی روایت پر چلنے والامعاشرہ ہے ۔ جہاں مذہبی اقدار و احکامات کی پیروی کی جاتی ہے ۔ اس معاشرے میں انصاف کا عمل العدل کے اصطلاحی تصور سے وابستہ ہے جس کا مطلب ہے منصف یا انصاف پسند جو خدا ئے بزرگ و برتر کی صفات جلیلہ میں سے ایک صف پر مبنی ہے اس لیے وکیل ہونا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے دیناوی امور میں ان لوگوں سے گہری مذہبی و اخلاقی توقعات وابستہ کی گئی ہیں جو قانون کے شعبہ سے منسلک ہے اس لیے ہم سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اخلاقی اور پیشہ وارانہ اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کے زیر اہتمام انٹر نیشنل کانفرنس آن لیگل ایجوکیشن 2015کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قرآن کریم میں تنبہیہ کے لئے گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جو کہ ناانصافی اور ظلم کے باعث تباہ برباد ہو گی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سینیٹ سے اپنے خطاب میں بھی کہا تھا کہ ظلم و جبر پر قائم ریاست اور معاشرے اپنی ساخت میں غیر مستحکم اور نا پائیدار ہوتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی انصاف کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور ابتدائیہ میں ہی کہتا ہے کہ یہاں اسلامی عقائد کی روشنی میں آزادی مساوات ، تحمل اور معاشرتی انصاف کو ممکن بنایا جائے گا ۔ ریاست اس امر کی ضمانت دے گی کہ ہر فرد کو بنیادی حقوق حاصل ہوں جن میں رتبے اور مواقع میں برابری ، قانون کے سامنے برابری اور معاشرتی معاشی و سیاسی مساوات شامل ہیں ۔

ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور ریاست کی بنیاد معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور پر رکھی جائے گی ۔ اور سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنایا جائے گا ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے خطاب میں کہاکہ یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے کہ قانون کی تعلیم محض وکلا اور قانون کے شعبہ سے وابستہ افراد کے لئے مخصوص ہے قانون کی تعلیم دیگر شعبوں یعنی اکاونٹینسی ، مینجمنٹ ، صحت اور حفاظت ، بیوروکریسی اور ایسے ہی دیگر شعبوں کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ریاست اور اس کے اداروں جیسے عدلیہ اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو بااختیار بنانے کے لیے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اور سب تک قانون کی رسائی کو ممکن بنائیں ۔ ہمارے ہاں قانون کی تعلیم قدیم اور فرسودہ اصول وضوابط پر استوار ہے جو عہدے حاضر میں اپنی افادیت کھوچکے ہیں معاشرے میں قانو ن کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن قانون کی تعلیم کا یہ نادر تجربہ افسوس ناک ہے قانون کی تعلیم کی اس زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے بہتری اوراصلاحات کے لیے تعلیم دینے والے اداروں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

صرف قانونی تعلیم دینا ہی کافی نہیں بلکہ اب اس کی جگہ ایک متحرک اور جاندار نصاب ترتیب دینا بھی لازمی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ نصاب کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں قانون پڑھنے کے انداز میں بھی انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اساتذہ کی صفوں میں اہل علم ، محقیقین اور پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل افراد شامل کرنے کی ضرور ت ہے ۔ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کو طلبہ میں تحقیق اور جستجو ، مباحثیاور تجزیے کی استعداد بڑھا نے کے لیے ساز گار ماحو ل پیدا کرنا ہوگا ۔

اگر ایسا کیا گیا تویہ قانون کے شعبے میں بڑی خد مت ہو گی ۔ جو مستقبل میں وکیل ، جج ، پالیسی ساز ، مشیر معاون مصالحت کار یا استاد کے فرائص اداکرنے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نظام قانون اسلامی قانون اور انگریری رواجی قانون کا امتزاج ہے اس میں متعدد جگہ آمرانہ ادوار کا رنگ بھی موجود ہے اس بنا پر یہ مختلف عقائد وتصورات کا مجموعہ ہے یہ قانون پڑھا نے والو ں کی ذمہ داری ہے کہ اس صورت حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں طالب علموں کو اچھی طرح آگاہ کریں ۔

اس صورت حال کی عکاسی ہمارے یہاں قانونی مسودوں کی تیار ی یا لیگل ڈرافٹنگ کے معیار سے ظاہر ہوتی ہے ۔قانون پڑھانے والے اداروں کو لیگل ڈرافٹنگ کا مضمون خصوصی طور پر نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کو اس اہم شعبے کے تمام تقاضوں سے عمدگی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا سکھا یا جا سکے ۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں