سقوط ڈھاکہ و سانحہ پشاور بین الاقوامی سازش اور بھارتی مداخلت کا شاخسانہ ہے،مقررین

ادارہ نورحق میں’’16دسمبر ،سقوط ِ مشرقی پاکستان و سانحہ پشاور ‘‘ کے زیر ِ عنوان منعقدہسیمینارسے جسٹس(ر)وجیہ الدین،اسداﷲ بھٹو،شاہدہ وزارت،شاہنواز فاروقی،نعیم الرحمن و دیگر کا خطاب

بدھ 16 دسمبر 2015 22:58

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 دسمبر۔2015ء) سقوط ڈھاکہ و سانحہ پشاور بین الاقوامی سازش اور بھارتی مداخلت کا شاخسانہ ہے،سانحہ پشاوربھی اچانک رونما نہیں ہوا،اس کے پیچھے بہت سے عوامل تھے جن پر غور کی ضرورت ہے،ہمیں اس بات کا ادارک کرنا ہوگا کہ لاٹھی اور بندوق سے حالات درست نہیں ہو سکتے،ہم سب کو مل بیٹھ کر اور سوچ سمجھ کر حالات بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے،سانحات سے بچنے کے لیے ان کے پیچھے کارفرما عوام اور اسباب کا سد باب کرنا ہوگا۔

بنگلہ دیش میں اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو دی جانے والی سزائیں1974کے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی ہے،ہم بنگلہ دیش کا بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں اور اس کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار مقررین نے جماعت اسلامی کراچی کے تحت ادارہ نور حق میں ’’16دسمبر ،سقوط ِ مشرقی پاکستان و سانحہ پشاور ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔

سیمینار کی صدارت جسٹس (ر) جیہ الدین نے کی ۔سیمینار سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسد اﷲ بھٹو ،بین الاقوامی امور کی ماہرپروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،معروف کالم نگار شاہنواز فاروقی ،جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اور نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی نے بھی خطاب کیا ۔سیمینار میں زندگی کے مختلف شعبو ں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

جسٹس(ر) وجیہ الدین نے کہا کہ بڑے بڑے سانحات اور واقعات اچانک نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے کچھ عوامل ہوتے ہیں جن کی وجہ سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ پشاور جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں،یہ دونوں سانحات 16دسمبر کو ہوئے ،مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہمارا رویہ بہت خراب تھا اور ہم ان کو ان کا نہ صرف حق نہیں دیتے تھے بلکہ ان کی بے توقیری بھی کرتے تھے،لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ان کا روپیہ ہمارے روپیہ سے زیادہ مہنگا ہے،مشرقی پاکستان میں نوے ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے جب کہ وہاں توجنگ بہت لمبی لڑی جا سکتی تھی،لیکن ایسا نہیں ہوااس وقت بنگلہ دیش کی عدالت کا چیف جسٹس ایک ہندو جج ہے وہاں اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر شہید کیا جارہا ہے اور انٹرنیشنل ٹرائیبیونل قائم کر کے پرانے مقدمات کو دوبارہ کھولا گیاحالانکہ 1974کے معاہدے کی رو سے ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا،ہم اس مسئلے پر اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کے اندر جا سکتے تھے،لیکن ہم نہیں گئے آج وہاں کا ایک بڑا مسئلہ ان ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کا بھی ہے جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں،میاں نواز شریف نے اپنے پچھلے دور میں کہا تھا کہ ہم ان کو لاکر پنجاب میں آباد کریں گے،اب ان کو تیسری مرتبہ حکومت ملی ہے وہ ان کو وہاں سے لائیں اور پنجاب میں بسائیں،ہم بنگلہ دیش کا بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں اور اس کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں،ماضی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا مداوا کرنے کی اشد ضرورت ہے،اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ باہمی اعتماد بحال ہو،سانحہ پشاور بھی اچانک رونما نہیں ہوا،اس کے پیچھے بھی بہت سے عوامل ہیں،ہمیں ان پر غور کرنا ہوگا،مغربی میڈیا کی رپورٹیں بلا شبہ پوری طرح درست نہیں ہوتیں لیکن اصل حقائق کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہمیں اپنے اندر کے حالات کو بھی دیکھنا چاہیے وہ یقینا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم 122تعلیمی اداروں کے نام ان سے منسوب کر رہے ہیں لیکن وہاں تو144شہادتیں ہوئی تھیں باقی کو کیوں بھول گئے۔

اسد اﷲ بھٹو نے کہا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے ۔اس سانحے نے ہمارے پیارے ملک کو دولخت کیا ۔یہ سانحہ اس لیے رونماء ہوا کہ وہاں کے مینڈیٹ کو کچلا گیا ۔ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے لازمی ہے کہ عوامی سوچ اور عوام کی آزادانہ رائے کو تسلیم کیا جائے اور انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں ۔خوف کے ماحول میں الیکشن کا سلسلہ بند کیا جائے ۔

اس سے عوام کے اندر احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے اور عوام کے اندر انتخابات میں شریک ہونے کے لیے دلچسپی کم سے کم ہو تی جارہی ہے ۔مشرقی پاکستان کے سانحہ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ اندرونی طور پر تو عوام کے اندر ناراضگی تھی لیکن اس سے زیادہ عالمی اور بین الاقوامی طاقتیں اور سازشیں اس کی وجہ تھیں کیونکہ یہ طاقتیں ایک بہت بڑی اسلامی مملکت کے وجود کو تسلیم کر نے پر تیار نہیں تھیں اور بھارت کی مداخلت اور سر پرستی کی وجہ سے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا ۔

وہاں ہمارا مقابلہ مکتی باہنی سے نہیں تھا بلکہ بھارت کی فوج سے مقابلہ تھا اور پوری بھارتی فوج پاکستان کو توڑنے کے عمل میں شریک تھی ۔ہماری فوج نے اور نوے ہزار فوجیوں نے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے وہ کون تھا بھارتی جنرل تھا ،یعنی ہماری اصل جنگ بھارت کے ساتھ تھی ۔جنگی قیدی بھی شملہ معاہدے کی رو سے آزاد ہوئے اور یہ معاہدہ بھی بھارت سے ہوا تھا ۔

پاکستان اصل میں بین الاقوامی سازش اور بھارتی جارحیت کی وجہ سے دولخت ہوا اور نریندر مودی اس جرم کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان توڑنے میں بھارت پوری طرح شریک تھا ۔حکومت ِ پاکستان کو مودی سے مزاکرات کے بجائے ان کے اس بیان اور اعتراف پر آواز اُٹھانی چاہیئے اور عالمی سطح پر بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر نا چاہیئے ۔آج بنگلہ دیش مین اسلام اور پاکستان سے محبت کر نے والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے کہ اور قائدین کو پھانسی کی سزائیں دی جارہی ہیں یہ اصل میں اسلام پسندوں کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

روفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ 2001سے ہم نے اپنے ملک کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جس کا ملک اور قوم کو نقصان ہی ہو رہاہے ۔پشاور میں بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے لیکن ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ہم نے حالات سے سبق نہیں سیکھا ہے اور عالمی سطح پر ایک اور جنگ میں ہمیں ملوث کر نے کی تیاری کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری موجودہ حکومت نے seed actمیں خاموشی سے تبدیلی کر دی ہے اور اب ہمیں غذا بھی زہر آلود ملے گی لیکن اس کے خلاف کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں ہے ۔

حکمرانوں نے پاکستان کے مفادات کو ہر شعبے میں پس پشت ڈال دیا ہے اور ہماری حکومت امریکہ اور بیرونی طاقتوں کے اشارے پر اپنی پالیسی بنا رہی ہے ۔امریکہ اور بھارت نواز عناصر اور گروہوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے ۔ملک اور قوم کے مفادات کی بات کر نے والوں کو دیوار سے لگا یا جارہا ہے ۔پاکستان سے محبت کر نے والوں کو آگے نہیں آنے دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہم سانحہ مشرقی پاکستان سے دو چار ہوئے اور پشاور کے سانحے کا سامنا کر نا پڑا ۔

ہمیں ان سانحات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک اور قوم کے مفادات کو اولیت دی جائے اور محرومیوں کو دور کیا جائے ۔شاہنواز فاروقی نے کہا کہ مسلم دنیا کے تین بڑے سانحات ہیں ۔سقوطِ بغداد ،سقوطِ دلی اور سقوطِ ڈھاکہ اور ان میں سقوظ ڈھاکہ سب سے بڑا سانحہ ہے کیونکہ اس میں ایک اسلامی مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ اس سانحہ میں ہمارے نوے ہزارفوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور پوری ملت کو یہ ذلت اُٹھانی پڑی ۔

حکمرانوں نے اس سانحے کو بھلانے کی کوشش تو کی لیکن ہماری اجتماعی نفسیات سے اس کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہو سکے ہیں ۔جب کبھی بھی ملک کے کسی حصے میں حالات خراب ہو تے ہیں سندھ ،بلوچستان ،کراچی میں تو فوراً ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان یاد آجاتا ہے کہ کہیں ہم پھر اس سانحے سے تو دوچار نہیں ہو جائیں گے ۔حکمران طبقے نے اس کے اسباب بھی چھپانے کی کوشش کی اور حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہ آسکی ،جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس رپورٹ کے کچھ حصے شائع بھی ہوئے تو وہ حصے جو جنرل پرویز مشرف کو فائدہ فراہم کر تے تھے ۔

مشرقی پاکستان کی آبادی کا 56 فیصد تھا مگر انہوں نے 50فیصد حصے کو بھی تسلیم کرلیا لیکن بدقسمتی سے ان کو وہ 50فیصد بھی ایمانداری کے ساتھ نہیں دیا گیا ۔ان کے معاشی حق پر ڈاکہ ڈالا گیا اور پھر سیاسی حق بھی نہیں دیا اور حق تلفی بالٓاخر دوریوں اور پھر علیحدگی کا سبب بنی اور ہمارا نصف وجود ہم سے کٹ گیا ۔بھارت ایک ایسا ملک ہے کہ جو ہمیشہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتا ہے ۔

بھارت نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا ہے اور مسلسل ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ۔جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں تاریخ ان کو اپنے حافظے سے کھرچ کر رکھ دیتی ہیں ۔ہمیں اس سانحے سے یہ سبق سیکھنا ہے کہ اپنی تاریخ کو نہ بھولیں ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ16دسمبر ہماری تاریخ کا اہم ترین دن ہے ۔16دسمبر کو پاکستان دولخت ہوا ۔

ہمیں ان محرکات اور حالات کا تجزیہ کر نا چاہیئے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ 24سالوں میں وہاں کے لو گ ان مسائل کا شکار ہو گئے ؟ کہ ملک کا ایک بازو الگ ہو گیا ۔ا س میں ہمیں حکمرانوں اور بیوروکریسی، سول و فوجی دونوں کے کردار کا بھی جائزہ لینا چاہیئے اور بھارتی مداخلت اور اس کی سازشوں کو بھی نظر انداز نہیں کر نا چاہیئے ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کو توڑنے میں بھارت شریک تھا ۔

16دسمبر کو گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا گیا اور معصوم بچوں اور اساتذہ کو شہید کر دیا گیا یہ بھی یقیناً ایک بڑا حادثہ اور سانحہ ہے اور ان حادثات اور سانحات کو ہم بھول نہیں سکتے ۔آج ہم سب لوگ چاہتے ہیں کہ ان حادثات اور سانحات سے بچیں جو مشرقی پاکستان میں پیش آئے اور پشاور میں رونما ہوا ۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں