وفاق سے جدائی نہیں چاہتے تاہم وفاق کا رویہ اور لہجہ بھی قابل قبول ہونا چاہیے،مولا بخش چانڈیو

وفاقی وزیر داخلہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں ،ا ن کو کراچی میں خوش آمدید کہیں گے ،ہوسکتا ہے وہ ہمارے مرض کا علاج کردیں ،پریس کلب میں گفتگو

جمعرات 31 دسمبر 2015 19:47

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31 دسمبر۔2015ء) وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ سندھ میں گورنر راج یا ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وفاق سے جدائی نہیں چاہتے تاہم وفاق کا رویہ اور لہجہ بھی قابل قبول ہونا چاہیے ۔رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت میں کوئی جنگ یا جھگڑا نہیں ہے ۔

پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت چاہتی ہے کہ رینجرز کو اختیارات حاصل ہوں اور کراچی آپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے ۔وفاقی حکومت کو سندھ حکومت کی گزارشات سننی چاہئیں ۔کڑوی گولی بعض مرتبہ اہم امراض کے علاج کا سبب بنتی ہے ۔وفاقی وزیر داخلہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں ۔وہ کراچی کا دورہ کررہے ہیں ہم ان کو خوش آمد کہیں گے ۔

(جاری ہے)

شاید وہ ہمارے مرض کا علاج کردیں ۔داعش پوری دنیاکے لیے خطرہ ہے ۔ایک شخص ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے ۔اسلام آباد میں ایک شخص داعش کا پرچار کررہا ہے اور پنجاب اور دیگرمقامات پر داعش سے وابستہ افراد کی گرفتاریاں ہورہی ہیں ۔اب یہ بتایا جائے کہ داعش کیا پاکستان کے لیے خطرہ نہیں ہے ۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات میں اہم امور پر گفتگو ہوئی ہے ۔

وزیراعظم نے سندھ حکومت کے تحفظات حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔امید ہے کہ ہمارے تحفظات دور ہوں گے ۔پیپلزپارٹی توڑنے کی نہیں جوڑنے کی بات کرتی ہے ۔وفاق کو بھی صوبائی حکومتوں پر اعتبار کرنا ہوگا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی اور سیکرٹری اے ایچ خانزادہ بھی موجود تھے ۔

مشیر اطلاعات کو کراچی پریس کلب کی جانب سے سندھ کا روایتی تحفہ اجرک پیش کیا گیا ۔مشیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں کراچی پریس کلب آیا ہوں ۔یہاں بڑے بڑے سیاسی کارکن آتے رہے ہیں ۔1969سے پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوں ۔ہر دور دیکھا ہے ۔مزدور کا بیٹا ہوں ۔صحافیوں کے مسائل سے آگاہ ہوں ۔سندھ بھر کے پریس کلبس کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔

چاہتا ہوں کہ صحافیوں کی رہائش کے لیے ہاؤسنگ اسکیم کا مسئلہ جلد از جلد حل ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسے معاشرے کا قیام چاہتے ہیں کہ جہاں لوگ ایک دوسرے کو قبول کریں اور اختلافات کے باعث کسی کو قتل نہ کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ صحافی قلم سے جہاد کرتے ہیں ۔انہیں بھی خطرات کا سامنا ہوتا ہے ۔رینجرز کے اختیارات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رینجرز کا آپریشن جاری رہنا چاہیے ۔

انہیں اختیارات بھی ملنے چاہئیں ۔ہم اسی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں ۔مشکل وقت میں رینجرز نے ہمارے کہنے پر کراچی میں امن قائم کیا ۔ہم نہیں چاہتے کہ کراچی کی رونقیں دوبارہ اندھیرے کی طرف جائیں ۔دہشت گردی کی جو بھی تعریف ہو ہمارا واضح موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری رہنا چاہیے لیکن ادارے حدود میں کام کریں اور اتھارٹی کو تسلیم کیا جائے ۔

اگرایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا تو کسی بھی کام کے نتائج بہتر انداز میں نکلتے ہیں ۔کسی بھی کام کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔سندھ میں کچھ لوگ گرینڈ الائنس نہیں گرنیڈ الائنس کی باتیں کررہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی بھی ختم ہو اور جمہوریت بھی ختم ہوجائے ۔انہوں نے سوال کیا کہ عوام بتائے کہ کیا ارباب غلام رحیم اور لیاقت علی جتوئی کا دور سنہری تھا؟ ۔

سب کو پتہ ہے کہ ان لوگوں کے مقاصد کیا ہیں ۔کچھ لوگ جن کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہوتا وہ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔سندھ میں ایم کیو ایم ایک وجود رکھتی ہے ۔اس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے ۔مسائل کے حل کے لیے کسی بھی جماعت سے بات چیت کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاق اور سندھ حکومت میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور نہ ہی جنگ ہے ۔ہمارا واضح موقف ہے کہ ایک دوسرے کی اتھارٹی کو تسلیم کیا جائے اور مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ۔

حدود میں رہ کر کام کریں گے تو ناکامی نہیں ہوگی ۔ایک سوال کے جواب میں مشیر اطلاعات نے کہا کہ جمہوریت میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں ۔رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر ہمارا وفاق سے جھگڑا نہیں ہے ۔کچھ قانونی مسائل ہیں ان کو حل کرلیا جائے گا ۔ایک سوال کے جواب میں ا نہوں نے کہا کہ ایک وزیر کی پریس کانفرنس پر ہمیں اعتراض او اختلاف تھا ۔وفاق کو صوبوں کی ثقافت اور سماجی نقطہ نظر کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے ۔

نواز شریف ہمارے بھی وزیراعظم ہیں ۔تحفظات سے آگاہ کیا ہے ۔امید ہے کہ وہ ہمارے تحفظات کو حل کریں گے ۔وزیراعلیٰ سندھ اور وزیراعظم کی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے موقف سے وزیراعظم کو آگاہ کردیاہے ۔وفاقی حکومت کے اقدامات کا ہمیں انتظار ہے ۔انہوں نے کہا کہ جدا کرنے والے لوگ بہت ہوتے ہیں ۔ہم ملانے والے لوگ ہیں ۔

نفرت نہیں محبت،توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کی بات کرتے ہیں ۔ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے ۔پاک فوج اور رینجرز کے لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ سندھ پولیس بھی آپ کی ہے ۔یہ بھی اسی ملک کا حصہ ہیں ۔سندھ پولیس میں تمام قومیتیں کے لوگ ہیں اس پر بھی اعتبار کیا جانا چاہیے ۔سیاسی قیادت پر اعتماد ہوگا تو مسائل حل ہوں گے ۔

کوئی بھی دہشت گردوں کے ساتھ نہیں سب دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔انہوں نے واضح کیا کہ وفاق سے جدائی نہیں چاہتے ۔پیپلزپارٹی کی سیاست ہے کہ وفاق مضبوط ہو تاہم وفاق کو بھی اپنا رویہ اور لہجہ بہتر بنانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج یا ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔وفاق اور سندھ حکومت کے رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر قانونی موقف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے تشریح کرنا چاہتا ہے کہ لیکن ہم قانونی بات کرتے ہیں ۔

آئین میں بعض آرٹیکلز ایسے ہیں جن سے وفاق اپنے مقاصد پورے کرسکتا ہے لیکن اگر ان آرٹیکلزکا استعمال ہوگا تو دوریاں پیداہوں گی جو اچھی بات نہیں ہے ۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ سندھ حکومت کے وفاقی وزیر داخلہ سے اختلافات ہیں اور اب وزیر اعظم ان ہی کو مسائل حل کرنے کے لیے کراچی بھیج رہے ہیں ۔اس کے جواب میں مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ اب وہ ہمارے مرض کے علاج کے لیے آرہے ہیں ۔

وہ ملک کے وزیرداخلہ ہیں ۔ہم ان کا استقبال کریں گے ۔انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ بعض مرتبہ کڑوی دوائیاں صحت کا پیغام دیتی ہیں اور بہت سارے مرض کے علاج کا سبب بنتی ہیں ۔وہ آئیں ہمارے بھی مرض کا علاج کردیں ۔داعش کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک شخص یہ ضمانت دیتا ہے کہ ملک میں داعش کا وجود نہیں ہے حالانکہ پوری دنیا کے لیے داعش خطرات کا سبب ہے لیکن اسلام آباد ایک شخص داعش کا پرچار کرتا ہے اور پھر کچھ لوگ داعش کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتے ہیں ۔

گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں ۔ہمیں یہ بتایا جائے کہ داعش کیا پاکستان کے لیے خطرہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی لڑائی جھگڑا نہیں چاہتی ۔ہم مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہیں ۔پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے انہیں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا تو وہ پیش کردیں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیار و محبت کے ذریعہ ہی زندہ رہا جاسکتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اتنی اچھی زمین اور وطن دیا ہے اس کو وطن کے طور پر قبول کرلیں ۔یہاں کے لوگ محبت کرنے والے ہیں اور محبت کی وجہ سے ہی قبول کیا ہے ۔علیحدگی کی باتیں نہ کریں یہ اﷲ کو بھی پسند نہیں ہیں ۔بعض لوگ جدائی کی باتیں کرتے ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے ۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں