چولستان جہنم کا گڑھ بن گیا‘چولستانی باشندے نقل مکانی کرنے پر مجبور‘کوئی پرسان حال نہیں، ہم کونسی مخلوق ہیں اور کونسی دنیا کے باسی ہیں جو ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے‘چولستانی باشندوں کی صحافیوں سے گفتگو

پیر 28 جولائی 2008 12:36

خیرپور ٹامیوالی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین۔28جولائی 2008ء) بزرگ صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب روہی رنگیلی حکومتی عدم توجہ کا شکار ہو گئی-قحط سالی اور خشک سالی کے نتیجے سے سورج سوا نیزے پر آنے سے صحرا چولستان جہنم کا گڑھ بن گیا- موت کا فرشتہ عفریت کی طرح منہ کھولے زندہ انسانوں کو نگلنے کیلئے چولستان میں گھس گیا- صدیوں سے آباد چولستان باشندے موت کاشکار ہو گئے بارشیں نہ ہونے سے ٹوبے خشک ہو گئے پیاس کے مارے چولستانی باشندوں کی کثیر تعداد موت کے منہ میں چلی گئی-چولستان وہ صحرا ہے جو اپنے اندر صدیوں کی تہذیب وثقافت کو چھپائے ہے قلعہ ڈروار تاریخ کا منہ بولتا شاہکار ہے جسے دیکھنے کیلئے غیر ملکی سیاح آتے ہیں آج وہ قلعہ بھی مسمار ہو رہا ہے یہ قلعہ نواب آف بہاولپور نے تعمیر کیا تھا اس قلعہ میں شاندار نمونے موجود ہیں قلعہ ڈروار میں نوابگاں بہاولپور کی تاریخی توپ موجود ہے اور پرانا قبرستان بھی ہے جس میں بڑے بڑے نواب شاہکارمدفن ہیں- جی ہاں صحرا چولستان اپنے ادنر بڑے بڑے تاریخی ورثے چھپائے ہے آج وہی چولستان زندہ انسانوں اور جانوروں کو نگل رہا ہے پندرہ روز کے اندر 25 افراد کی اموات سے انسانیت کانپ اٹھی ہے مگر حکومتی ادارے اور این جی اوز تاحال خاموش ہیں جگہ جگہ جانوروں کے ڈھانچے ہڈیاں خطرناک سماں پیدا کررہے ہیں-ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے چولستان کیلئے ملنے والی اربوں روپے کی گرانٹ حکومتی ادارے ہڑپ کر گئے ہیں صحرا چولستان میں نہ تو محکمہ صتح اور نہ ہی محکمہ امور حیوانات کی ٹیمیں پہنچی ہیں اور ن ہی کسی حکومتی ادارے نے جا کر چولستانی باشندوں کی داد رسی کی ہے- جانور جو شہریوں اور آبادیوں کو دودھ اور گوشت فراہم کرتے ہیں وہی جانوردرجنوں کے درجنوں موت کا شکار ہو رہے ہیں محکمہ چولستان ترقیاتی ادارہ سب اچھا ہے کاغذی رپورٹیں بنا کر اعلی حکام کو روانہ کر دیتا ہے چولستانی باشندے اپنی بستیاں چھوڑ کر نقل مکانی کر کے قریبی آبادیوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں آبادیوں میں آنے والے باشندے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو یا تو انہیں لوٹ لیتے ہیں یا پھر گردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں- ان کے معصوم بچے اغواء ہو کر اونٹ دوڑ کیلئے عرب ممالک کو فروخت کر دیئے جاتے ہیں اپنے لخت جگر کھو جانے سے مائیں گنگ ہو چکی ہیں آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے دنیا ومافیا سے بے خبر دیکھتی رہتی ہیں-غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور چولستانی باشندے بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہیں بزرگ صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمت اللہ علیہ کے مطابق ”وچ روہی دے راہندیاں نازک ناز وجٹیاں“ آج چولستان سے نقل مکانی کر کے جب آبادیوں کی طرف پہنچتے ہیں تو ان کے چہرے غربت و افلاس اور سورج کی تپتی ہوئی لہر نے کالے سیاہ کر دیئے ہیں جسم سوکھ کر کانٹا بن چکے ہیں بچے دودھ کیلئے چیختے اور چلا رہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے -چولستانی باشندوں سے جبت صحافیوں نے سوالات کئے تو ان کی چیخیں نکل گئیں روتے ہوئے بتایا کہ ہمارے خاندانوں کے خاندان چولستان میں دفن ہو چکے ہیں ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہیں ہماری فلاح وبہبود کیلئے کسی این جی اوز یا حکومتی ادارے نے کردار ادا نہ کیا ہے ہم غربت و افلاس اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہیں کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم کونسی مخلوق ہیں اور کونسی دنیا کے باسی ہیں جو ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے -آنے والی ہر حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے مگر ہمارے کیلئے کوئی ہمدرد نہ رہا ہے اور نہ ہی کسی ادارے یا این جی اوز نے آ کر ہمارا حال پوچھا ہے ہم یونہی تڑپتے سسکتے ہوئے موت سے ہمکنار ہو جائیں گے -

متعلقہ عنوان :

خیرپور میں شائع ہونے والی مزید خبریں