پنجاب اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 144کے تحت قرار داد کو اکثریتی رائے سے منظور کرلیا ،

ویلتھ ٹیکس بڑھانے اور تمام ہوٹلوں میں 17فیصد ٹیکس کوبڑھانے کا ایک بار پھر مطالبہ، ریلوے کی زمین پر لوکل گورنمنٹ بغیر این او سی تعمیر ات نہیں کر سکتی، جیسے ہی اجازت ملے گی ریلوے کالونی سے ملحق استعمال شدہ پانی سے چھوٹے جوہڑ کی نکاس آب کیلئے اقدامات کریں گے‘، چودھری شیر علی کا وقفہ سوالات میں جواب، 1500روپے کا لان کا جوڑا 15000روپے میں فروخت کیوں ہو رہا ہے یہ اشرافیہ کے استعمال کی چیزیں ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہاایسی ٹیکسٹائل پروڈکٹ پر بھی ٹیکس عائد ہونا چاہیے ‘شیخ علاؤ الدین کی بجٹ بحث میں تجویز

پیر 30 مارچ 2015 21:35

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30مارچ۔2015ء ) پنجاب اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 144کے تحت قرار داد کو اکثریتی رائے سے منظور کرلیا ‘ویلتھ ٹیکس بڑھانے اور تمام ہوٹلوں میں 17فیصد ٹیکس کوبڑھانے کا ایک بار پھر مطالبہ کر دیا گیا ‘صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ نے کہا ہے کہ ریلوے کی زمین پر لوکل گورنمنٹ بغیر این او سی کے تعمیر ات نہیں کر سکتی جیسے ہی اجازت ملے گی ریلوے کالونی سے ملحق استعمال شدہ پانی سے چھوٹے جوہڑ کی نکاس آب کیلئے اقدامات کریں گے اورلاہور میں ناجائز تجاوزات کے خاتمے کیلئے سپیشل سکواڈ سے سرکاری زمین کو واگزار کروایا جاتا ہے‘1500روپے کا لان کا جوڑا 15000روپے میں فروخت کیوں ہو رہا ہے یہ اشرافیہ کے استعمال کی چیزیں ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہاایسی ٹیکسٹائل پروڈکٹ پر بھی ٹیکس عائد ہونا چاہیے ‘شیخ علاؤ الدین کی بجٹ بحث میں تجویز۔

(جاری ہے)

پیر کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس قائمقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا ۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے جوابات صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ چودھری شیر علی نے دیئے ۔عائشہ جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہاکہ لاہور میں ناجائز تجاوزات کو ختم کرنے کیلئے ہر ٹاؤن میں ایک سپیشل سکواڈ تشکیل دیا ہے اور ابھی ٹاؤن کا عملہ تہہ بازاری دو شفٹوں میں کام کر رہا ہے جبکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت لوکل کونسل تجاوزات کے خاتمے کے موقع پر موجود ہوتا ہے تاہم ایک ہی روز میں تمام تجاوزات کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور ہر ڈسٹرکٹ میں الگ الگ ہیلپ لائن ٹیلی فون نمبر نہیں دیئے جا سکتے۔

راحیلہ خادم حسین کے سوال پر صوبائی وزیر نے کہاکہ باغبانپورہ جی ٹی روڈ سے سکھ نہر سٹاپ تک تعمیرات جاری ہیں اور ٹیپا 2013ء سے اس منصوبے پر کام کر رہا ہے جبکہ جی ٹی روڈ سے سکھ نہر تک ٹریفک وارڈنز کو تعینات کیا گیا ہے جو ہمہ وقت ٹریفک کی روانی کو یقینی بناتے اور پیٹرولنگ کرتے ہیں۔فائزہ ملک کے سوال پر صوبائی وزیر نے کہاکہ ٹریفک کے باعث مین شادباغ روڈ لاہور کو عبور کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن ٹی ایم اے شالامار لاہور کی مالی حالت نہایت کمزور ہے اور گورنمنٹ اس سلسلہ میں گرانٹ مہیا کر دے تو ٹی ایم اے گرین بیلٹ یا ڈیوائڈر تعمیر کروا دے گی جس پر فائزہ ملک نے کہاکہ اندرو ن لاہور ہو یا ٹھوکر نیاز بیگ عوام کو ٹریفک کے شدید مسائل ہیں اور حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے جبکہ ٹھوکر نیاز بیگ پر ہی 7بار روڈ کو توڑا اور تعمیر کیا گیا ہے ۔

راحیلہ خادم حسین کے سوال پر صوبائی وزیر نے بتایا کہ پی پی 144اور پی پی 145میں اس وقت 9ڈسپنسریاں ہیں جو مقامی حکومت چلا رہی ہیں جبکہ ان ڈسپنسریوں میں حفاظتی ٹیکہ جات بیرونی مریضوں کے علاج معالجے کی سہولت بھی موجود ہے اور بچوں کی پیدائش او ر ماں و بچہ کے متعلقہ معلومات اور علاج کی سہولت بھی دستیاب ہیں۔فوزیہ ایوب قریشی کے سوال پر صوبائی وزیر نے کہاکہ بہاولپور شہر میں جن علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نہیں لگائے گئے وہاں گورنمنٹ کی پالیسی اور فنڈز کی دستیابی پر واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کئے جائیں گے جبکہ پچھلے 5سالوں میں ٹی ایم اے سٹی کی جانب سے 4واٹر فلٹریشن پلانٹس لگوائے گئے ہیں۔

سردار شہاب الدین خان سیہڑ کے سوال پر چودھری شیر علی نے بتایاکہ ضلع لیہ میں سردارشہاب الدین کے گھر کے سامنے ریلوے ٹریک کے ساتھ ریلوے کی ملکیتی زمین موجود ہے جو ریلوے کالونی سے ملحق ہے اور ریلوے کالونی کا استعمال شدہ پانی جمع ہونے سے 2چھوٹے جوہڑ بن گئے ہیں تاہم 8لاکھ 33ہزار روپے کا ٹینڈر مرحلہ وار مکمل ہونے اور ریلوے کی زمین کا این او سی کے بعد ہی یہ مسئلہ حل ہو گا اورہم نے ریلوے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ کالونی کے گندے پانی کیلئے سکیم تیار کرے چونکہ ٹی ایم اے کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ریلوے کالونی کیلئے کوئی سکیم بنا سکے ۔

ایوان میں قائمقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی نے افغانستان سے آئے ہوئے ڈاکٹر انور نیازی کی سربراہی میں 18رکنی وفد کو خوش آمدید کہا جبکہ ناہید نعیم اور احمد شاہ کھگہ اورعامر سلطان چیمہ کی تحریک التوائے کار نمٹا دی گئیں جبکہ شیخ علاؤ الدین کی دو اور عامر سلطان چیمہ کی ایک تحریک کو ملتوی کر دیا گیا۔اجلاس کے دوران صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے آئین کے آرٹیکل 144کے تحت قرار داد ایوان میں پیش کی جس میں موقف اختیار کیاگیا تھا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 144کے تحت امر کااظہار کرتی ہے کہ مجلس شوری وفاقی اور صوبائی قوانین کی درخواست اشاعت سے متعلق معاملات کو بذریعہ قانون منضبط کرے جس پرحکومتی اراکین اپنی سیٹوں پر کھڑے ہوگئے جبکہ ڈاکٹر وسیم اختر کے اعتراض کے باوجود اسے منظور کرلیا گیا۔

اجلاس میں پری بجٹ پر بحث کرتے ہوئے حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین نے تجویز پیش کی کہ بجٹ میں خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن اس کا ادراک نہیں کیا جارہا ہے جبکہ ویلتھ ٹیکس پرویز مشرف نے کچھ پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے کی وجہ سے ختم کیا تھا جو بحال ہونا چاہئے ۔ انہوں نے غیر ضروری اور پرتعیش اشیاء کی درآمدات کی حوصلہ شکنی اور ذرمبادلہ بچانے کیلئے سادگی اختیار کرنے پر زوردیا اور کہا کہ حکومت اور میڈیا غیر ضروری اشیاء اور خاص طور پر اشیائے خورو نوش کی درآمد پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ دس پندرہ سو روپے میں تیار ہونے والا لان کے کپڑوں کا جوڑا پندرہ پندرہ ہزار روپے میں کیوں فروخت ہورہا ہے اور پندرہ روپے میں تیار ہونے والی اشیائے خورونوش اس سے کئی گنا زائد قیمت پر کیوں بک رہی ہیں ، ان پر بھی ٹیکس ہونا چاہئے جبکہ یہ اشرافیہ کے استعمال کی چیزیں ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

انہوں نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کا معاملہ بھی اٹھایا اور انہیں سرورسز کی مد میں ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز بھی پیش کی ۔ا ن کا کہنا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیس پر کوئی بات نہیں کرسکتا اور یہ تعلیمی ادارے من مانی کرتے ہیں ۔ شیخ علاؤالدین نے پنجاب ریونیو اتھارٹی کی ورکنگ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ اتھارٹی کوئی کام نہیں کر رہی ، جو ادارے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں ہیں وہ انہیں دوبارہ نوٹس بھیج رہی ہے ، اس اتھارٹی کی ورکنگ پر نظر ثانی کی جائے یا اسے بند کردیا جائے ، اور ہوٹلوں و ریستورانٹس کی بھی رجسٹریشن کرکے ان سے ٹیکس لیا جائے ۔

انہوں نے کمرشل گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس میں کمی کا مطالبہ بھی کیا، انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کمٹمنٹ کی کمی ہے اور یہاں دو ہزار روپے میں بہترین غدار ملتا ہے جبکہ ترقی کرنے والی قوموں میں ایسا نہیں ہے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئیے اپوزیشن رکن ڈاکٹروسیم اختر نے پراونشل فنانس کمیشن بنانے اوربجٹ ایوان کی کمیٹیوں کے زر یعے ایوان میں زیر بحث لانے کی تجویز دی ۔

انہوں نے جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر زور دیا ، ان کا کہنا تھا کہ سابق دور میں جو منصوبے شروع کیے گئے تھے وہ بھی مکمل نہیں ہورہے جن میں پنجاب اسمبلی کی عمارت بھی شامل ہے جس پر قائم مقام سپیکر نے انہیں آگاہ کیا کہ اسمبلی کی عمارت کیلئے وزیر اعلیٰ نے دس کروڑ روپے کا فنڈ جاری کردیا ہے اور کہا ہے کہ اگلے سال تک یہ عمارت مکمل کرلی جائے گی اور اس مقصد کیلئے بجٹ بھی مختص کیا جائے گا جس پر ایوان نے ڈیسک بجائے تو ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ وہ بھی ڈیسک بجاتے ہیں تاہم گجرات کا کڈنی سنٹر بھی مکمل کیا جانا چاہئے جو سابق حکومت نے شروع کیا تھا۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے اقلیتی رکن کانجی رام نے اقلیتوں کا ترقیاتی فنڈ دگنا کرنے، چولستان میں الاٹمنٹ میں اقلیتوں کیلئے کوٹہ مختص کرنے اور جنوبی پنجاب میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم بنا کر اقلیتوں کیلئے پانچ فیصد کوٹہ مختص کرنے کی تجویز پیش کی ۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید اور ارشد ملک نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے شہری علاقوں کے بجائے دیہی اور پسماندہ علاقوں کی ترقی پر فوکس کرنے پر زوردیا ۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکار پس کر رہ گیا ہے اس کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ۔ انہوں نے زرعی فنڈ اور سبسڈی میں ضروریات کے مطابق اضافے کی تجویز پیش کی جبکہ حکومتی رکن طاہر سندھو نے ایوان کی توجہ بارشوں کی وجہ سے فصلوں کو پہنچنے والی نقصان کی طرف توجہ دلوائی اور کہا کہ متاثرین کی مناسب امداد کی جائے کیونکہ کاشتکار کی بہت بری حالت ہے مگر اس کا پرسان حال کوئی نہیں ۔

ڈاکٹر فرزانہ نذیر اور نجمہ ارشد نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردی کے پیش نظر پولیس کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ٹریننگ دی جائے جبکہ ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے ، پرائیویٹ میڈیکل پر پابندی اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں ری سرچ سمیت ڈاکٹر ز کی تنخواہوں کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ڈیرہ غازی خان میں ایکس رے اور ایم آر آئی مشینوں سے عوام کو مستفید کیا جائے اور لاہور کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی میٹرو بس چلائی جائے ۔

باؤ اختر نے کہاکہ گڑھی شاہو چوک کو آزادی چوک کی طرح خوبصورت اور آرام دہ بنایا جائے جبکہ شالیمار باغ کی تزین و آرائش ،واہگہ کے قریب 150بیڈ پر مشتمل ہسپتال اور پرائمری سکولوں کیلئے فنڈز کیلئے مطالبہ کیا گیا ۔اقلیتی رکن ذوالفقار غوری نے کہاکہ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ میں پرچی فیس بڑھائی جائے اور اقلیتوں کیلئے سالانہ 1کروڑ روپے کا فنڈ بڑھا یا جائے جبکہ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی رہائش گاہوں کو قومی ورثہ قرار دیا جائے اور سندھ کی طرح پنجاب میں بھی چرچ ، مندروں اور گوردواروں کی سکیورٹی کیلئے اقلیتی ممبران کو سکیورٹی پر تعینات کیا جائے ۔

قائمقام سپیکرسردار شیر علی گورچانی نے کارروائی مکمل ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج صبح 10بجے کیلئے ملتوی کر دیا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں