واپڈا کی2014-15 ء کی تیسری سہ ماہی جائزہ رپورٹ،ڈیموں میں پانی زیادہ مقدار میں موجود ہے

جنوری مارچ 2015 ء کے دوران واپڈا ہائیڈل پاور سٹیشنوں سے قومی نظام کو 4 ارب ایک کروڑ یونٹ سستی پن بجلی مہیا کی گئی

جمعہ 3 اپریل 2015 18:01

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03 اپریل۔2015ء) واپڈا ہاؤس میں منعقدہ اتھارٹی اجلاس میں موجودہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی کی جائزہ رپورٹ پر غور کیا گیا۔ جائزہ رپورٹ تیسری سہ ماہی کے اختتام یعنی 31 مارچ 2015 ء کو منگلا، تربیلا اور چشمہ کے آبی ذخائر میں پانی کی دستیابی اور جنوری سے مارچ 2015 ء کے دوران واپڈا کے ہائیڈل پاور سٹیشنوں سے قومی نظام کو پن بجلی کی فراہمی پر مبنی تھی۔

اتھارٹی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ 31 مارچ کو منگلا، تربیلا اور چشمہ کے آبی ذخائر میں 27 لاکھ 50 ہزار ایکڑ فٹ پانی موجود ہے، جو اِسی مدت میں گذشتہ سال اور 10 سالوں میں پانی کی اوسط دستیابی سے زیادہ ہے۔ گذشتہ سال تیسری سہ ماہی کے اختتام پر 19 لاکھ 86 ہزار ایکڑ فٹ پانی موجود تھا جبکہ اِسی مدت میں گذشتہ 10 سالوں میں پانی کی اوسط دستیابی 6 لاکھ 93 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔

(جاری ہے)

نتیجتاً اس سال آبپاشی کیلئے صوبوں کو زیادہ پانی دستیاب ہے۔ اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ آبی ذخائر میں اضافی پانی کی یہ مقدار اوسط سے زیادہ بارشوں اور ریزڈ منگلا ڈیم میں زیادہ پانی ذخیرہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ پانی کی اضافی دستیابی زرعی اور اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہوگی ۔اجلاس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ مذکورہ سہ ماہی میں واپڈاہائیڈل پاور سٹیشنوں سے قومی نظام کو 4 ارب ایک کروڑ 20 لاکھ یونٹ سستی پن بجلی مہیا کی گئی۔

آبی ذخائر میں زیادہ پانی ہونے کے باوجود بجلی کی یہ مقدار گذشتہ سال کی نسبت معمولی کم ہے کیونکہ گذشتہ سال اسی مدت میں قومی نظام کو 4 ارب 41 کروڑ یونٹ بجلی فراہم کی گئی تھی۔ بجلی کی پیداوار میں یہ معمولی کمی ارسا کی جانب سے پانی کے کم انڈنٹ کی وجہ سے ہے،کیونکہ فروری اور مارچ میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے زرعی مقاصد کیلئے صوبوں کو پانی کی کم ضرورت تھی ۔

تاہم ڈیموں میں اس وقت جو زیادہ پانی موجود ہے اس کی مدد سے چوتھی سہ ماہ یعنی موسم گرما میں زیادہ بجلی پیدا ہوگی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی تعمیر کا بنیادی مقصد زرعی مقاصد کیلئے پانی کی فراہمی ہے جبکہ پن بجلی کی پیداوار ان کا ثانوی مقصد ہے۔ اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ عام تاثر یہ ہے کہ زیادہ بارش ہونے سے زیادہ پانی میسر آتا ہے اس لئے بجلی بھی زیادہ پیدا ہونی چاہیےٴ، یہ تاثر درست نہیں ہے کیونکہ موجودہ ہائیڈل پاور سٹیشنوں سے بجلی کی پیداوار ارسا کے انڈنٹ کے مرہون منّت ہے۔

مذکورہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پن بجلی کے زیادہ سے زیادہ رن آف ریور منصوبے تعمیر کئے جائیں تاکہ پانی کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے، کیونکہ ایسے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار ارسا کے انڈنٹ پر منحصر نہیں ہوتی۔ اجلاس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ پانی کی مدد سے زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کیلئے واپڈا کو داسو ، بونجی ، پٹن اور تھاکوٹ جیسے رن آف دی ریور منصوبے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ واپڈا ہائیڈل پاور سٹیشنوں کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 7 ہزار میگاواٹ ہے جو ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ واپڈا کے بعض پن بجلی گھر 50 سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں لیکن بہتر دیکھ بھال اور موٴثر آپریشن کی وجہ سے وہ ابھی بھی پوری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔

اجلاس میں نوٹ کیا گیا کہ واپڈا ہر سال قومی نظام کو اوسطاً 30ارب یونٹ سستی پن بجلی مہیا کرتا ہے۔ پن بجلی کی یہ مقدار بجلی کے نرخوں کو کم سطح پر رکھنے میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے، اس بات سے عیاں ہے کہ جنوری 2015 ء کے اعداد و شمار کے مطابق کہ پن بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت 2 رو پے62پیسے ہے جبکہ گیس سے بجلی کا ایک یونٹ پیدا کرنے پر 7 روپے43 پیسے،کوئلے سے 12روپے91 پیسے ، گنے کے پھوک سے 12 روپے98 پیسے، فرنس آئل سے 17روپے58 پیسے ، ہائی سلفر ڈیزل سے 23روپے 43 پیسے، نیو کلیئر سے 5 روپے98 پیسے اور ہوا سے 11روپے 62 پیسے لاگت آتی ہے، اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت 10 روپے 03پیسے ہے۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں