آئندہ پچیس سال کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر لاہور کو47زونز میں تقسیم کرکے منصوبہ بندی کا ماسٹر پلان تیاری کے مراحل میں ہے ‘ ایم ڈی واسا

ہزاروں گھوسٹ کنکشنز کے علاوہ 37فیصد صارفین بلوں کی مد میں ادائیگی نہیں کرتے ،سرکاری محکمے بھی شامل ہیں‘ چوہدری نصیر احمد

اتوار 10 جنوری 2016 13:58

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 جنوری۔2016ء)مینیجنگ ڈائریکٹر واسا چوہدری نصیر احمد نے کہا ہے کہ فراہمی اور نکاسی آب کی آئندہ پچیس سال کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کو 47زونز میں تقسیم کرکے منصوبہ بندی کا ماسٹر پلان تیاری کے مراحل میں ہے ،ماسٹر پلاننگ کے ذریعے نیا انفراسٹر اکچر ڈیزائن کر کے پرانے کومکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،انفراسٹر اکچر اور مختلف واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کیلئے 300ارب روپے درکار ہیں ،ہزاروں گھوسٹ کنکشنز کے علاوہ 37فیصد صارفین بلوں کی مد میں ادائیگی نہیں کرتے جن میں سرکاری محکمے بھی شامل ہیں۔

ایک انٹرویو میں ایم ڈی واسا نے کہا کہ جب تک پانی ’’ سیاسی لوگو ‘‘ کے طور پر استعمال ہوگا واسا کا ٹیرف نہیں بڑھ سکتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے سرکاری ملازم ہونے کے ناطے حکومت کے احکامات ماننے کا پابند ہوں ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد نئے ٹیوب ویلز لگانے کے لئے جتنی بھی درخواستیں آئی ہیں کسی کو بھی رد نہیں کیا ۔پبلک سیکٹر کے ہر ادارے کی طرح واسا میں بھی مافیاز موجود ہیں ۔

نا دہندگان سے وصولی اور پانی چوری کے لئے مسودہ قانون 2013ء سے اسمبلی میں پڑا ہے لیکن اس کی منظوری نہیں دی گئی ۔ واپڈا، سوئی گیس کے محکموں کے کہنے پر چوری اور نا دہندگی پر سرکاری محکموں کے خلاف مقدمات درج ہو جاتے ہیں واسا واحد محکمہ ہے جس کے کہنے پر ایسا نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو چوکیدار ہیں وہ چور ہیں۔ واسا کو کارپوریٹ ماڈل دینا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ واسا میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ کنکشز ہیں ۔63فیصد صارفین بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں جبکہ 37فیصد ادائیگی نہیں کرتے اور ان میں سرکاری محکمے بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا کام تجویز دینا ہوتا ہے اس پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ جب تک واسا کو کارپوریٹ ادارہ نہیں بنایا جاتا یہ کلیریکل سٹاف کے ہاتھوں پٹتا رہے گا ۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں 1990سے 2010ء تک واٹر،سینی ٹیشن ،پانی کے ذخائر، سٹرکچر،ٹریٹ منٹس پلانٹس پر سرمایہ کاری کی گئی اور اس میں واٹراور سینی ٹیشن مشکل ترین ہیں لیکن شاید بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان ہی ممالک ہوں گے جنہوں نے اسے مکمل نظر انداز کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ماسٹر پلاننگ کر کے انفراسٹر اکچر ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔

انفراسٹر اکچر ،مختلف ٹریٹمنٹ پلانٹس کے لئے 300ارب روپے کی ضرورت ہے اور یہ کام مرحلہ وار کیا جا سکتا ہے اور اسے کرنا چاہیے کیونکہ ہم اس میں جتنی تاخیر کرتے جائیں گے اس کی لاگت اتنی ہی بڑھتی جائے گی ۔ا نہوں نے بتایا کہ لاہور کی آئندہ 25سال کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے 47زونز میں تقسیم کر کے سفارشات تیار کی جارہی ہیں اوریہ کام تیاری کے مراحل میں ہے جسے مکمل ہونے پر منظوری کے لئے حکومت کو بھجوا دیا جائے گا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں