تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور عبادت میں مصروف نہتوں پر حملوں سے واضح ہے دہشتگردوں میں وحشت کا نظریہ سرائیت کر چکا ہے‘ پرویز رشید

قلم ، کیمرے ، ٹیلی وژن سکرین ، نصاب ،دکھائے جانے والے ڈراموں ،میوزک ہر ایک کردار کا جائزہ لینا ہوگا ،اس کا استعمال درست نہ ہو سکا تو دہشتگردی کا عفریت ہمارے گلے میں ہی پڑا رہیگا ‘ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات

جمعہ 22 جنوری 2016 20:44

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 جنوری۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہاہے کہ دہشتگردوں کے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور عبادت میں مصروف نہتوں پر حملوں سے واضح ہے کہ ان میں وحشت کا نظریہ سرائیت کر چکا ہے ،دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ان کے نظریے کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ اگر یہ زندہ رہے گا تو یہ نئے افراد کوجنم دے سکتا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پولیس کی استعداد کار بڑھانے کیلئے منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سمیت دیگر اعلیٰ افسران بھی موجود تھے ۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ میں چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں گیا تو وہاں دیکھا کہ دہشتگردوں نے جائے نماز پر بیٹھے ہوئے نہتے طالبعلم کوبھی نہیں بخشا ۔

(جاری ہے)

یہ ہماری تربیت میں شامل ہے بلکہ جینز میں آچکی ہے کہ جب کوئی شخص جائے نماز پر بیٹھا ہو ،اﷲ کے حضور سر بسجود ہو تو اس کے سامنے سے گزرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ اس کی پشت سے گزرتے ہیں۔ باتیں کر رہے ہوں تو اپنی آواز آہستہ کر لیتے ہیں ۔ اس سے واضح ہے کہ دہشتگردوں کے نظریے میں وحشت سرائیت کر چکی ہے جو عبادت ‘ تعلیمی اداروں حتی کہ ہسپتالوں میں بھی نہتوں پر حملے کر رہے ہیں۔

یہ لڑائی نظریاتی لڑائی بھی بن چکی ہے ہمیں اپنی ورکشاپ میں ایسی بھی باتیں شامل کرناہو نگی جو ان سے نمٹنے کے لئے مددگا اور معاون ثابت ہو تی ہوں ۔ہمیں بندوق سے تو جنگ لڑنا ہی ہے لیکن قلم اور کیمرے سے بھی بھی اس لڑائی کو لڑنا ہے ،آج کے زمانے میں کیمرے کی اہمیت ہے ، دہشتگردوں کا حملہ جاری ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے آگاہی لے رہے ہوتے ہیں اور دہشتگردوں کو پتہ ہوتا ہے کہ انہیں میڈیا وار کا سامنا ہے ۔

لیکن وہ سوشل میڈیا پر مختلف دلائل پیش کرتے ہیں،ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ اب یہ جنگ دو سمتوں میں جارہی ہے ایک سمت جہاں پر دہشتگرد فزیکل وائلنس کر رہے اور ہیں اور دوسری طرف سکرین کے ذریعے گھروں کے اندر پہنچ چکی ہے ہمیں دونوں جگہوں پر اپنے مقاصد کے لئے کام کرنا ہوگا اور دونوں جگہوں پرموجود ہونا ہوگا۔ فزیکل وائلنس کا مقابلہ اور سکرین کا مقابلہ کرنا ہوگا اور جہاں کمی خامی موجود ہے اسے دور کرنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اس طرح کی لڑائی سے پالا نہیں پڑا بلکہ اب اسے فورتھ جنریشن کا نام دیا جارہا ہے ۔ فرانس ، برطانیہ بلکہ ہمارے خطے کے ممالک بھی اس کا شکار ہوئے ہیں ۔ جنگ کی جہتیں ہیں یہ ممکن ہے کہ تنظیمیں اور افراد دہشتگردی میں ملوث ہوں اور ان پر آنے والے دنوں میں قابو پا لیا جائے ،پنجاب میں ایسے افراد سے چھٹکارا حاصل ہوا ہے اوراس میں پنجاب پولیس اور اسکی قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں دہشتگردوں کا انفراسٹر اکچر کو ختم کیا گیا ہے ،انکے ٹھکانے اور آلات تباہ کئے گئے ہیں ،انکے تنظیمی روابط ٹوٹے ہیں لیکن نظریے کودیکھنا ہوگا ،اگر یہ نظریہ زندہ رہتا ہے اور بنتا رہتا ہے تو یہ نئے افراد کو جنم دے سکتا ہے ۔ کسی تنظیم کے پاکستان میں وجود کے بارے بحث میں پڑے بغیر یہ بات کی جا سکتی ہے کہ آج ان تنظیموں کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے ۔

دہشتگرد اپنا کوئی نام رکھ لے وہ دہشتگرد ہی ہے لیکن مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ ان کا نظریہ مزید نہ پھیلے ۔ اس طرح کی ورکشاپس میں اس طرح کی باتیں ضرور ہونی چاہئیں۔دہشتگردی ایک جزو ہے اور اس کا کل اس کا نظریہ ہے ۔ یہ کیسے افراد ہیں جو کسی دوسرے شخص کی زندگی لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ان کی سوچ ،مفادات تربیت اور علم کیا ہے ؟ہم کیسے اس نظریے کا خاتمہ کریں تاکہ کل انہیں ایسے لوگ میسر آنا بند ہو جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی پوری دنیا کی جنگ بن چکی ہے اور اس کے لئے فکر مند ہے ۔ اس طرح کے اشارے ملتے ہیں کہ کچھ قوموں کے زیادہ افراد اس جال میں جکڑے ہوئے ہیں کچھ میں کہیں نظر نہیں آتے ۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں دوسروں کے مقابلے میں اس کا وجود زیادہ کیوں ہے ،ہم کیا تعلیم دے رہے ہیں ، وہ کیا تعلیم دے رہے ہیں جو ہماری نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ذہنوں کو بنانے میں میڈیا کا کردار ہے ،اسی طرح اخبار ، میگزین ،تحریریں ،ڈرامے ، فلمیں ، میوزک بھی ہے ،یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سے کہیں ایسی غلطی تو نہیں ہوتی رہی جس سے کوئی اس طرف راغب ہو ،کیا نصاب میں کمی ،کوتاہی تھی کہ اس میں تقدس کے نظریے کو دیکھا گیا ہو لیکن اس کی آڑ میں جو عمل کیا گیا وہ گنا ہ کی شکل میں سامنے آیا ہم سب کو غور کرنا چاہیے ۔

ہمیں قلم ، کیمرے ، ٹیلی وژن سکرین ، نصاب ،دکھائے جانے والے ڈراموں ،میوزک ہر ایک کردار کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ اگر اس کا استعمال درست نہ ہو سکا تو دہشتگردی کا عفریت ہمارے گلے میں ہی پڑا رہیگا ۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں