پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے زیراہتمام ایک نشست کا اہتمام ،فوری انصاف اور قانونی کی حکمرانی پر صوبائی ارکان کو بریفنگ دی گئی

ہفتہ 23 جنوری 2016 18:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔23 جنوری۔2016ء) پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے زیراہتمام ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں پنجاب اسمبلی کے ارکان اور میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کی طرح صوبہ پنجاب میں انصاف کی فوری فراہمی اور قانون کی حکمرانی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے مندرجہ ذیل سفارشات اراکین پنجاب اسمبلی کو پیش کی جارہی ہیں تاکہ صوبے میں قانون کی حکمرانی اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

کہا گیا کہ پولیس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ موجود بجٹ 82.95بلین روپے ہے جس نے تقریباً 103ملین آبادی کی دیکھ بھال کرنی ہے اور یہ صوبے کے کل بجٹ کا صرف 6فیصد ہے۔اس پولیس بجٹ میں سے 80.13فیصد تنخواہوں اور الاؤنسز پر 7.57فیصد ایندھن، 2.08فیصد تربیت اور 10.22فیصد دیگر اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

قانون کی عمل داری کے لیے بجٹ میں اضافہ ناگریز ہے۔ نشست میں کہا گیا کہ صوبائی کرنسل جسٹس رابطہ کمیٹی کا قیام، صوبائی سطح پر کرنسل جسٹس رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

جس کے چیئر پرسن چیف جسٹس ہائی کورٹ میں جبکہ دیگر اراکین میں آئی جی پولیس، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری پراسیکوشن اور نائب چیئرمین پنجاب بار کونسل شامل ہوں۔ایف آئی آر سادہ آن لائن اور کمپیوٹر ائزڈ ہونی چاہیے۔ تمام ایف آئی کا اندراج سادہ بیان میں کیا جائے اور ایف آئی آر کی دستیابی آن لائن کی جائے تاکہ تمام متعلقہ اداروں کی رسائی یکساں اور فوری ہو۔

جسے فوری طور پر پراسیکوشن کو بھی جاسکے۔ ایف آئی آر میں نامزد افراد کی فوری گرفتاری نہیں ہونی چاہیے، اس حوالے سے سول پٹیشن نمبر 1282بابت 2014ء حیدر علی بنام ڈی پی او چکوال کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کا حوالہ دیا جاسکے گا۔ جس میں عدالت عظمیٰ نے 15ہدایات دی ہیں۔ کسی شخص کو اس وقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک پولیس کے پاس اس کی گرفتاری کے لئے واضع شہادت نہ ہو۔

اگر کسی شخص کی آزادی کو ناجائز طور پر کیا گیا تو ایسا کرنے والے پولیس آفیسر اسے زیر تلافی ادا کرے گا۔ گواہان کے لیے قانون سازی کی جائے۔ جس کے تحت انصاف کی فراہمی کے لیے عدالت میں بیان دینے والوں کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں صوبہ سندھ میں قانون سازی ہوچکی ہے اور پنجاب قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔

مفت قانونی امداد کے لیے اتھارٹی قائم کی جائے۔ موجودہ قانون نظام آئینی تقاضوں کے مفت قانونی کی فراہمی میں ناکام ہوچکا ہے۔ صوبائی سطح پر مفت قانونی امداد کے نظام کو مربوط بنانے کے لیے مفت قانونی امداد کے لئے اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب پبلک ڈیفنڈاز سروس کے قانون سازی کی ضرورت کے حوالے پنجاب پبلک ڈیفنڈازاور لیگل ایڈ آفس ایکٹ 2007ء چار سال کے بعد 2011ء کو منسوخ ہوچکا ہے۔

یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ صوبائی سطح پر اس کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ مستحق افراد کو مفت قانونی امداد کی فراہمی کے لیے سرکاری وکلاء، صفائی کے دفاتر قائم کئے جاسکیں۔ نشست کے اختتام پر بریفنگ کے دوران اخبار نوسیوں کے سوالوں کے جواب کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب کا پیغام آگیا جس کے باعث اراکین اسمبلی میڈیا کے سوالوں کا جوابات دیئے بغیر ہی اٹھ کر چلے گئے۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں