بجٹ غیر مناسب ہے ، بجٹ کو مجوزہ ٹیکس تجاویز کے ساتھ منظور نہ کیا جائے، اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز مدِ نظر رکھتے ہوئے نا مناسب ٹیکس ختم کئے جائیں،سکھر ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر محمد اقبال آرائیں، نائب صدر عبدالمجید فاضلانی اور دیگر کا بجٹ پر ردعمل

جمعرات 13 جون 2013 20:45

سکھر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔13جون۔ 2013ء) سکھر ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر محمد اقبال آرائیں، نائب صدر عبدالمجید فاضلانی،محمد دین، محمد رفیق ڈوسانی، حاجی نورالدین آگرہ والے، سجاداللہ قریشی اور اراکینِ مجلسِ انتظامیہ نے بجٹ کو غیر مناسب قرار دیا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ بجٹ کو مجوزہ ٹیکس تجاویز کے ساتھ منظور نہ کیا جائے اور اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نا مناسب ٹیکس ختم کئے جائیں مثلاً گھی اور دیگر اشیاءِ خورد و نوش پر ٹیکس ختم کیا جائے تاکہ عام آدمی جوکہ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے پسا ہوا ہے اُسے کچھ ریلیف مل سکے اسی طرح درآمدی خوردنی تیل کی مہنگائی سے گھی اور کوکنگ آئل کی انڈسٹری مزید زیرِ بار ہوگی اور عوام کو ملنے والا گھی یا تیل مزید مہنگا ہوجائیگا ۔

(جاری ہے)

نئے وفاقی بجٹ 2013-14 میں مختلف آئٹمزاور سیکٹرز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سیلز ٹیکس میں مزید اضافہ بھی مہنگائی کا باعث ہوگااسے بھی واپس لیا جائے۔ لہٰذا ایوان کی جانب سے پرزور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملنا چاہیے وگرنہ مجوزہ ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوگا۔

جبکہ گھریلو استعمال کے برقی آلات پر ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔ ہائی برڈ 1200 CC گاڑیوں پر ٹیکس میں 100 فیصد چھوٹ کی تجویز انتہائی نا مناسب ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری تباہ ہو جائیگی جبکہ نئی گاڑیوں کی خریداری پر 20,000 روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی قابلِ اصلاح ہے کیونکہ اس سے چھوٹی گاڑیاں بھی مہنگی ہوجائینگی۔دانشمندانہ تجویز تو یہ ہوتی کہ بڑی گاڑیوں پر زیادہ ٹیکس رکھا جاتا تاکہ بڑی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا سکے اور چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی جس سے ایندھن کے استعمال میں بچت ہوتی اور ملک کے درآمدی بل / یا تیل کی درآمد کے بل میں کمی واقع ہوتی۔

سیمنٹ اور تعمیراتی مٹیریل مہنگا ہونے سے تعمیراتی صنعت کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔مجوزہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور غیر متوقع طور پر تنخواہوں میں اضافہ کی کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی یہ بات نا قابلِ فہم ہے کہ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی آنے والی نئی لہر کا مقابلہ کیسے کریگا۔پیشن میں 10 فیصد اضافہ قابلِ تحسین ہے۔بجٹ پیش کئے جانے کے بعد تاجر و صنعتی برادری کے تحفظات اور پاکستان بھر میں موجود چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ان کی فیڈریشن سے فوری طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے رابطہ کیا جائے اور اُن کے تحفظات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کے صلاح مشورے سے ایک قابلِ قبول بجٹ ترتیب دیا جانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں توانائی کا بحران حکومت کی فوری توجہ کا متقاضی ہے تاکہ صنعتی پہیہ رواں دواں رہ سکے اور اُس کی پیداواری صلاحیتوں سے کماحقہ فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ اور ہاؤس کے اخراجات میں نمایاں کمی کا اعلان خوش آئند ہے جبکہ دیگر تمام حکومتی اداروں کے اخراجات پر بھی قابو پایا جائے۔بجٹ خسارے پر قابو پانے کیلئے حکومت کے زیرِ سرپرستی چلنے والے بڑے اداروں مثلاً واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے میں بدعنوانیوں کا خاتمہ ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے۔

تاکہ ان اداروں کی ناقص کارکردگی کا خمیاذہ عوام کو نہ بھگتنا پڑے اور ان اداروں کے انتظامی معاملات کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں نفع بخش بنایا جائے۔اسطرح عوام سے حاصل کیا گیا ٹیکس ریوینیو ترقیاتی پروگراموں پر خرچ ہو۔نہ کہ اس کا بیشتر حصہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی نا اہلی کی بھیٹ چڑھا دیا جائے۔ایوان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حکومت ملک بھر سے موصولہ ردِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور وسیع پیمانے پر صنعتکاروں ، تاجروں اور عوام کے نمائندوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کریگی اور مجوزہ ٹیکس تجاویز کی اصلاح کرکے ایک عوام دوست بجٹ منظور کریگی۔

متعلقہ عنوان :

سکھر میں شائع ہونے والی مزید خبریں