نفس مطمئنہ

پیر 6 جنوری 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

پشاور یونی ورسٹی کے عقب میں واقع پلوسئی گاوں کی ربانیہ اسٹریٹ سایہ دار درختوں میں گھری ہوئی اداس اور ویران تھی کیونکہ اس حویلی کا ایک مکین اور عالمی اسلامی تحریکوں کا مرشد اسے اچانک چھوڑ گیا تھا۔وہ اپنے گھر کے انگن میں موجود سایہ دار درختوں کی مانند ہی تھا جس کی چھاوٴ ں میں اپنے بیگانے سبھی سکون اور پناہ حاصل کر تے تھے۔ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد اور ڈپٹی سیکرٹری ثاقب اکبر کے ہمراہ جب ہم لوگ قاضی حسین احمد کے آبائی گھر کے آنگن میں داخل ہوئے تو چہار سو سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ،گھر کے مکینوں سے زیادہ ماتم اور غم کی کیفیت قاضی حسین احمد کے فکری ورثاء پر طاری تھی جو خود پر قابو پانا بھول گے تھے۔آصف لقمان قاضی ،انس قاضی ،پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان ،ڈاکٹر رشاد احمد سلجوق،ڈاکٹر محمد فاروق ،ڈاکٹر رشید احمد سمیت کئی علمی ،سیاسی اور تحریکی شخصیات اشکبار آنکھوں سے قاضی صاحب سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے تاہم میرے پاس یادیں کم اور شرارتیں زیادہ تھیں ۔

(جاری ہے)

آبدیدہ حافظ حسین احمد نے بھرائی آواز میں کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں قاضی صاحب جیسا شفیق رہ نما نہیں دیکھا ،انہیں ملال تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ اہم شخصیات کو دنیا سے جانے کے بعد ہی قوم سے عظمت کا سرٹیفکیٹ کیوں حاصل کر نا پڑتا ہے ؟ لوگ ان شخصیات کی زندگی میں انہیں یہ مقام کیوں نہیں دیتے ؟
1996 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں جماعت اسلامی کا خون آشام دھرنا ختم ہوا تو ڈوبتے سورج کے ساتھ زخموں سے چور قاضی حسین احمد کی آغوش میں تین جوانوں کی لاشیں تھیں ۔قاضی عصر کے سر سے دستار غائب تھی اور زخمیوں کی بڑی تعداد ان کے دائیں بائیں موجود نعرے لگا رہی تھی ” ہم بیٹے کس کے قاضی کے“۔اس دھرنے میں پولیس کی فائرنگ سے ایبٹ آباد کے علاقے بانڈہ پھگواڑیاں کا ایک جوان عبدالصمد قاضی حسین احمد کے سامنے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔قاضی صاحب نے اس کا سر اپنی آغوش میں رکھا اور ان کے آنسو عبدالصمد کے چہرے پر گر کر اس کے خون میں جذب ہوگئے۔ ہمارا گھر ایبٹ آباد میں جماعت اسلامی کے دفتر کے عقب میں واقع تھا جس کی وجہ سے ہر وقت ایک ماحول بنا رہتا تھا،نعرے ،ترانے جلسے جلوس ،بس ہر وقت میلے کا سا سماں ہوتا تھا ،والد صاحب کٹر مذہبی اور ہماری تفریح یہ جلسے جلوس ہی ہوتے تھے۔
دھرنے کے اگلے روز قاضی صاحب عبدالصمد کا جنازہ پڑھانے ایبٹ آباد آئے، جماعت کے دفتر پہنچے اور زمین پر بچھے قالین پر لیٹ گئے۔جماعت اسلامی ایبٹ آباد کے سیکرٹری جنرل محبوب الہی سمیت دیگر رہ نما بھی دھرنے کی وجہ تھکے ہوئے تھے تاہم عبدالصمد کے جنازے اور قاضی صاحب کے عزم نے انہیں مزید متحرک بنادیا تھا۔قاضی صاحب دھرنے کے دوران پیش آنے والے واقعات سنانے شروع کئے تو کہنے لگے پولیس کے تشدد کی وجہ سے جسم میں شدید درد ہے۔میں نے قریب ہو کر انہیں دبانے کی کوشش کی تو کہنے لگے بیٹا پولیس کے ڈنڈے جو درد دیتے ہیں اس درد کو دباوٴ تو درد مزید بڑھ جاتا ہے۔ میں اس وقت نہم جماعت کا طالب علم تھا اور قاضی صاحب کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھا اور وہ ہمیشہ اسی طرح نظرآئے۔ بین گلے والی سفید قمیص ،نیلی واسکٹ ،جناح کیپ ، وقت کے ساتھ ساتھ جناح کیپ اور کپڑوں کی طرح داڑھی بھی مکمل سفید ہو گئی اور جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے ہاتھ میں لاٹھی بھی اٹھا لی تھی۔
برادرم سلیم صافی صاحب نے۲۰۰۹ ء میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں افغانستان اور پاکستان کے معاملات پر ایک گرینڈ جرگہ کیا جس میں قاضی حسین احمد کے ساتھ پروفیسر ساجد میر ،علامہ محمد احمد لدھیانوی ،ڈاکٹر فاروق خان مرحوم ،ثروت اعجاز قادری ،علامہ محمد امین شہیدی ،ڈاکٹر خالد مسعود اور حامد سعید کاظمی بھی شریک تھے۔پروگرام سے پہلے یہ تمام شخصیات ایک جگہ بیٹھی قاضی صاحب کی آمد کا انتظار کر رہی تھیں ،اتنے میں قاضی صاحب کمرے میں داخل ہو ئے تو ان کے ہاتھ میں عصا تھا ،میں نے ازراہ تفنن قمر جلال پوری کا شعر انہیں سنایا کہ

پیری میں خم ،کمر میں نہیں ،ضعف سے اے قمر
میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں کہ جوانی کدھر گئی

شعر سنا تو ہنس پڑے ،کہنے لگے کہ ”یہ لاٹھی نہیں عصائے کلیمی ہے جو تم جیسے جوانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے میں نے اٹھایا ہے“ میں نے کہا کہ” قاضی صاحب جب آپ پر عصا اٹھایا گیا تو اس وقت اسے نہیں اٹھایا اور اب ہم جیسے کمزوروں کے لیے آپ نے عصا اٹھا لیا ہے“۔ مرحوم ڈاکٹر فاروق خان صاحب کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھے اور کہنے لگے کہ مجھے اب اس شعر کی سمجھ آئی ہے کہ

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔

قاضی صاحب کے پاس بیٹھ کر بہت کچھ حاصل ہو تا تھا۔میرا کبھی جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق نہیں رہا بلکہ معاملہ اکثر الٹ ہی رہا تاہم احترام کا مسلک کبھی نہیں چھوڑا ۔قاضی صاحب سوال بھی تحمل سے سنتے تھے اور اس کا جواب بھی بڑی بردباری سے دیتے تھے لیکن کبھی کبھار غصّے میں ڈانٹ بھی دیتے ۔قاضی صاحب سے ایک مسئلہ تھا وہ یہ کہ قاضی صاحب کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ تو تھا نہیں ،کوئی پلاٹ ،پرمٹ کبھی حاصل نہیں کیا اور رہ کر ضیاء الحق اور مشرف کا ساتھ دینے کی بات رہ جاتی تھی جس پر وہ سوال سے پہلے ہی قوم سے معافی مانگ چکے تھے ۔وہ ذاتی کردار میں پاک تھے اور صاف گو انسان بھی ،،، یوں صحافیوں کا چسکا پورا نہیں ہوتا تھا۔
ادارہ فکر و عمل کے ایک اجلاس کے بعد کچھ وقت ان کے دفتر میں ان کے سامنے بیٹھا ،انہیں دیکھتا رہا۔اچانک میں نے ان سے پوچھا ،قاضی صاحب کبھی سوچتے ہیں کہ زندگی کیسے گذری ؟تو مسکرا دیے ،کہنے لگے ساری زندگی یہ ہی سوچ کر گذاری ہے کہ اللہ کو جواب دینا ہے اور الحمداللہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔ میں نے جب ان کا جنازہ دیکھا تو قرآن کی آیت نے اس منظر کومیرے لیے نظارے میں بدل دیا کہ نفس مطمئنہ جب اذن خداوندی کے ساتھ جنت میں داخل ہوتا ہے اس کے چہرے پر رب کی رضا کی مہر کیسے ثبت ہو جاتی ہے۔
امام الھند مولانا ابوالکلام آزاد کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد جب علم کی بستی اجڑی تو مرحوم شورش نے امام کی قبر پر کھڑے ہو کر عجب کلام کہاتھا ،میں چاک جگر حیرت میں گم شورش سے یہ نظم مستعار لیکر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے اضافے کے ساتھ قاضی حسین احمد کی خدمت میں ہدیہ کر تا ہوں۔

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستین نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے افق یہ مہر جبیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہیں ہے
یہ کون اٹھا کر دیر و کعبہ شکستہ دل خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے،عوام ہہنچے
تری لحد پر خدا کی رحمت تری لحد پر سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انسان میں سوچتا ہوں کہاں گیاہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زماں کا زور بیاں گیا ہے
اتر گئے کئی منزلوں کے چہرے ،میر کیا۔۔کارواں گیاہے
مگر تری مرگ نا گہاں کا اب تک مجھے یقین نہیں ہے
تو میرے خوابیدہ آنسوو ں کو ،او مرنے والے جگا چکا ہے
زمین کے تاروں سے ایک تارہ فلک کے تاروں میں جا چکا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :