خواجہ سعد رفیق کی پاکستان ریلوے

پیر 3 فروری 2014

Mubeen Rasheed

مبین رشید

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان ریلوے سے میری محبت اور مانوسیت کا سفر جاری ہے۔ پاکستان ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور کی تاریخی سرخ عمارت سے میرا جذباتی لگاوٴ ہے کیونکہ میرے مرحوم والد عبدالرشید قریشی نے ساری زندگی اسی عمارت کی چار دیواری کا طواف کرنے میں سفر کی۔ 4 اپریل 1993ء کو محض 48 سال کی عمر میں اچانک طبعی موت کے باوجود ریلوے سے میری محبت کم نہ ہو سکی کیونکہ آج بھی میری والدہ اسی عمارت سے والد کی پنشن وصول کرتی ہیں۔ پچھلے دور حکومت میں جہاں حکومت کی مجموعی کارکردگی سوالیہ نشان تھی وہیں پچھلے وزیر ریلوے کا اس محکمے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک دل کو بے چین کیے رکھتا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالتے ہی ایک ایسے بے لوث ، ایماندار اور انتھک محنتی وزیر کا انتخاب کیا ہے جس نے منصب سنبھالتے ہی محض چند دنوں میں ریلوے کی شکل بدل دی ہے اور اگر یہ شخص 5 سال نکال گیا تو یقین کر لیں کہ کئی بڑے ریلوے سٹیشنز اور ٹرینیں پہچانی نہیں جائیں گی۔

(جاری ہے)


ہفتے کے روز پاکستان ریلوے لاہور ہیڈکوارٹر کے کمیٹی روم میں شاندار ظہرانے سے قبل خواجہ سعد رفیق کی پرمغز گفتگو نے کئی مشکل سوالات کے آسان جوابوں کو سمجھنے میں مدد دی۔ وہ ایک جذباتی آدمی ہیں۔ جتنی سبک رفتاری سے گفتگو کرتے ہیں اتنی برق رفتاری سے فیصلے بھی۔ یہی بجلی کی تیزی اور دل و دماغ کی شفافیت پاکستان ریلوے کو اس ناقابل یقین بحران سے باہر نکال سکتی ہے جس کے متعلق اکثر مخالفین کا خیال تھا اور ہے کہ اس کی نجکاری کر دی جائے حالانکہ اس خدشے سے ریلوے کے ہزاروں ملازمین کے سانس سوکھے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر آسٹریلیا نے اپنی ریلوے چین کے حوالے کر دی ہے تو ہمیں اپنی ٹرین کا ٹھیکہ چین کے حوالے کرنے میں کہا مضائقہ ہے۔
لوگ پاکستان ریلوے کا مقابلہ انڈین ریلوے سے کرتے ہیں اور گوروں کے دور حکومت کو یاد کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس محکمے کو ہر دور میں محض سرکاری بھرتیوں کے لیے استعمال کہا گیا ہے جبکہ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کبھی خاطر خواہ مدد نہیں کی گئی۔ بنگلہ دیش کو لے لیں ان کا ریلوے ٹریک 2800 کلو میٹر طویل ہے۔ ہمارا تقریباً 8000 کلو میٹر طویل ہے لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش کا ریل بجٹ ہم سے چارگنا زیادہ ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے ملک میں موٹرویز اور سڑکوں کا جال بچھانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے گئے حتیٰ کہ ایک فلائی اوور کی تعمیر پر اربوں روپے لگائے گئے لیکن ریلوے ٹریک اور انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے کتنے پیسے لگائے گئے ہیں،اس سوال کا جواب ہمیں کئی سوالات کا جواب فراہم کرتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق کی اپنے ہی وزیراعظم سے خواہش ہے کہ وہ اس فرق کو تھوڑا کم کرنے میں مدد دیں۔
خواجہ سعد رفیق کو یہ وزارت سنبھالتے ساتھ ہی اس بات کا احساس تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقے کی طرح ان کے لاہوری حلقے کے کئی غریب لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری نوکری دلوانے کے لیے ان کے گھر کے چکر لگائیں گے لیکن انہوں نے ان سب کی مخالفت مول لی ہے حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ انہی غریبوں کی وجہ سے وہ پاکستان تحریک انصاف کے سرکرہ رہنما حامد خان ایڈووکیٹ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں وگرنہ ڈیفنس کے پوش علاقے کے رہنے والے لوگ تو شیر کو کھا گئے تھے۔
خواجہ سعد رفیق کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے اور والد کی یکدم شہادت کے بعد والدہ کے ناتواں کندھوں پر سوار ہو کر سیاست کی الف، ب سیکھی ہے اس لیے انہیں عوامی مشکلات اور سیاسی مجبوریوں کا بخوبی احساس ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران وہ جس مہارت سے کرسیاں سیدھی کرواتے رہے وہ ان کے سیاسی تجربے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ کس سینئر صحافی کو کہاں جگہ دینی ہے اور کون اس معاملے میں زیادہ حساس ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ ریلوے افسران کو کرسیوں کی قطار بنانا سکھا سکتے ہیں تو ٹرینوں کے ڈبے بھی سیدھے کرا سکتے ہیں۔ جناب مجیب الرحمن شامی اور افتخار احمد کے درمیان دلچسپ نوک جھوک نے بھی محفل میں رنگ بھر دیئے ۔ اگرچہ جملہ سازی اور مباحثے میں شامی صاحب سے جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
تقریب میں اتنی بڑی تعداد میں ٹی وی اینکرز ، ایڈیٹرز، کالم نگاروں اور صحافیوں کی شرکت کا سہرا یقینا ہمارے ہمدم دیرینہ روٴف طاہر کو جاتا ہے۔ اکیلے خواجہ سعد رفیق ہی مان نہیں تھے کہ انہوں نے روٴف طاہر جیسے کہنہ مشق اور دیانتدار صحافی کو ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز تعینات کر دیا ہے۔ اگرچہ ہمیں ان سے ایک بھی ریلوے کی مفت ٹکٹ کی امید نہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان کے مداح ہیں کہ وہ ایک پہاڑ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک شخص ہیں کہ ہم نے پچھلے چند برسوں کی شب وروز کی رفاقت میں سخت کٹھن حالات میں بھی انہیں ہمیشہ صابر و شاکر پایا جبکہ ان کی بذلہ سنجی اور حس مزاح کی تو ایک دنیا مداح ہے۔
خواجہ صاحب نے 11 جون 2013ء کو وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالا ہے اور محض 6 ماہ میں ان کے مخالفین بھی ان کے گن گانے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومت کے 5 سال کا عرصہ تو بہت زیادہ ہوتا ہے وہ اگلے دو سالوں میں ریلوے کو ٹریک پر لے آئیں گے۔ مردہ گھوڑے کے جینز کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہوتا اور یہ ہزاروں لوگوں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کا معاملہ ہے اس لیے یہ خواب کسی انقلاب سے کم نہ ہو گا۔ خواجہ سعد رفیق نے کرسی پر بیٹھے ساتھ ہی جس دیدہ دلیری سے رائل پام کلب اور بزنس ٹرین جیسے طاقتور لوگوں پر ہاتھ ڈال ہے اس سے لگتا ہے کہ ہر بڑی سے بڑی دیوار ان کے عزم صمیم کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہو گی۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ سے دست بستہ درخواست کی ہے کہ وہ 143 ایکڑ پر مشتمل رائل پام کلب کے سلسلے میں جلد فیصلہ کریں اور عدالت عالیہ سے بھی کہا ہے کہ وہ بزنس ٹرین کے سلسلے میں ہونے والی بے ضابطگی پر ایک جج کی جانب سے سٹے آرڈر کا نوٹس لیں کہ آخر اس جج کی اس معاملے میں غیر معمولی دلچسپی کیوں ہے؟
دنیا بھر میں ریلوے سٹیشنز اور ٹرینوں کو اشتہارات کی پبلسٹی کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ لندن انڈر گراوٴنڈ اس کی خوبصورت ترین مثال ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اسی وژن کو استعمال کرتے ہوئے خیبر میل ٹرین کو رنگین کرنے کا حساب لگوایا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ صرف اس ایک تاریخی ٹرین سے سالانہ 10 کروڑ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کراچی کینٹ سٹیشن کی ڈیزائننگ سے 40 کروڑ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے ، سالانہ اربوں روپے بھی کمائیں۔
وزیر ریلوے ایک سے زائد مرتبہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بلٹ ٹرین فی الوقت پاکستان کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان 63 بلین ڈالر والی ٹرین کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ کتنے امیر لوگ اسی مہنگی ٹرین میں سفر کریں گے اس کی بجائے اگر موجودہ تیزگام ٹرین کی رفتار 92 کلو میٹر سے بڑھا کر 125 کلو میٹر تک کر دی جائے تو یہ بھی بہت بڑی نیکی ہو گی کہ سال 2013ء میں سوا چار کروڑ لوگوں نے پاکستان ریلوے سے سفر کیا۔
خواجہ سعدرفیق کا ریلوے خواب کسی انقلاب سے کم نہیں اگر وہ اس خواب کو عملی تعبیر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا شمار یقینا پاکستان کی وزاراتی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کہ انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا انگریزوں نے ریلوے کو بنایا جبکہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو بچایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :