خدارا کشمیر کیلئے سنجیدگی سے سوچئے!

بدھ 5 فروری 2014

Shehbaz Saeed Aasi

شہباز سعید آسی

1990سے 5فروری کو ہر برس یو م یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جا رہا ہے ماسوائے 5 فروری 2004ء کو کیونکہ اس وقت کے صدرپاکستان پرویز مشرف کی بھارتی حکمرانوں کے ساتھ تازہ دوستی میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کرنے کا اعادہ کیا گیا اور اس روایت کو نظر انداز کر دیا گیا جو کشمیر کی تحریک آزادی کے نئے مرحلے پر ڈالی گئی تھی۔اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمدمرحوم کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔

(جاری ہے)

اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدآزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ جبکہ آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کر جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
سپیریئر یونیورسٹی میں ایم اے ماس کمیونیکشن کے دوران پروفیسر عطاء الرحمٰن نے نیشنل اینڈ انٹرنیشنل آفیئرز کے مضمون میں مسئلہ کشمیر پر لکچر کے دوران اسکے تاریخی پس منظر کے بارے اتنا کچھ بتا دیا تھا جو آج بھی میری نوٹ بک میں محفوظ ہے جب بھی وادی کشمیر کے حوالے سے معلومات چاہئے ہوتی ہیں تووہ نوٹس کھول کر پڑھ لیتا ہوں۔ویسے بھی صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے مجھے کشمیر پرتاریخی پہلوؤں کا بھی علم ہونا چاہئے اس لئے جب تاریخی اوراک چھانے تو معلوم ہوا کہ کشمیری صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے شکار رہے ہیں اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن” تحریک آزادی“ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اس خطے پر1586ء سے 1752 ء تک مغلوں کی حکومت رہی لیکن مغلوں نے محلات اور باغات کی تعمیر کے علاوہ کوئی دوسرا خاص کارنامہ سرانجام نہ دیا۔ 1752ء سے 1819ء تک افغان اس خطے پر مسلط رہے جنہوں نے کشمیریوں کی دولت کو وہاں سے باہر منتقل کر دیا جس طرح انگریزوں اور ان کی پروردہ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیوں نے برصغیر کی دولت کو لوٹ کر ولایت منتقل کر دیا، ان کا لوٹا ہوا ہیرا جو برصغیر کی ملکیت ہے آج بھی ملکہ برطانیہ کے پاس موجود ہے یہی کوہ نور ہیرا ہے جو ملکہ کے تاج کی زینت بنا ہے۔ 1819ء سے 1846ء تک کشمیر کو سکھووٴں نے اپنی کالونی بنائے رکھا اورعوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ تاریخ کا ایک بدترین سودا ہوا، انگریزوں نے صرف 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں کشمیر کی سرزمین اور انسانوں کو ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس سے بڑی انسانی حقوق کی اور کیا خلاف ورزی ہو گی کہ انسانی حقوق کے علمبردار کہلائے جانے والے انگریزوں نے انسانوں کا سودا کیا۔ 100 سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کو بدترین غلامی کا شکار بنائے رکھا۔ انھوں نے ہوا کے بغیر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا اور کوئی موت واقع ہوتی تو اس کے لواحقین ٹیکس جمع کراتے، اس سے قبل قحط سالی نے کشمیریوں کو گردو نواح کے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ کشمیر جو دنیا کی زرخیز ترین سرزمین ہے جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی تھی خون سے لالہ زار بن چکی ہے۔ یہ ڈوگروں کے مظالم ہی تھے جن کے باعث کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے اور 13 جولائی 1931ء کو 22 نوجوانوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادتیں پیش کیں لیکن وہ جھکے نہیں۔ ان شہداء کے خون کا قرض ان کے بعد 5 لاکھ شہداء نے چکا دیا۔ 1947ء میں لاکھوں کشمیریوں کو پاکستان بھیجنے کے بہانے شہید کیا گیا اور جموں سیالکوٹ کی گذر گاہیں، نالے انسانوں کے خون سے بھر گئے۔ 10 اکتوبر 1947ء کو برطانوی اخبار لندن ٹائمز نے لکھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی نگرانی میں 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو جموں اور اس کے گردو نواح میں شہید کیا۔ اسٹیٹس مین اخبار کے ایڈیٹر ریان سٹیفن نے اپنی کتاب Horned Moon میں لکھا ہے کہ ڈوگرہ مہاراجہ نے 1947ء کے خزاں تک 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرا دیا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر اپنے دور حکومت میں جو کیا اس کی داستان تو زبان زد عام ہے لیکن ہندو ستان چھوڑنے سے قبل ہند کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے کشمیریوں پر ظلم ڈھائے گئے آج تک کشمیری اس کا عذاب جھیل رہے ہیں۔کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور آبادی کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش رکھتی تھی لیکن انڈیا نے ناجائز طریقے سے اس پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اگرچہ بعد میں ایک حصہ اس کے تسلط سے آزاد کرالیا گیاجو اب آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان کے زیر اثر ہے۔آزاد کشمیر میں حکومت صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کے ساتھ تشکیل پاتی ہے جو اس کی آزاد ہونے کی دلیل ہے۔اس کے برعکس بھارت کے زیر تسلط خطہ میں بسنے والے کشمیری انسانیت سوز مظالم سے دوچار ہیں۔ ناجائز قبضے کے خلاف آواز اٹھانے اور حق آزادی کے مطالبے کی پاداش میں ظلم کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن یہ مظالم انہیں اپنے موقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکے۔ اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت کو محسوس کیا گیا اور اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان نے اپنی فطری ہٹ دھرمی اور بد نیتی کا ثبوت دیتے ہوئے اس معاہدے کو تسلیم کرنے کے باجود ابھی تک عمل نہیں کیا۔عالمی معاہدوں کے باوجود اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ دنیاکے سامنے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا اعلان کیا گیا اور قراردادوں پر دستخط کئے گئے لیکن63سال گزرنے کے باوجود ان قرارداوں پر عمل نہیں کیاجا رہا۔ تاشقند، شملہ، اعلان لاہور جیسے معاہدوں سے قبل اقوام متحدہ میں جو بھی معاہدے اور دعوے ہوئے ان پر عمل نہیں کیاگیا۔ عالمی ثالث نے سندھ طاس معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن جہلم، چناب، نیلم جیسے دریاوٴں پر ڈیم تعمیر کرکے پانی کو روکا جا رہا ہے۔ان دریاوٴں پر ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جو کشمیر کے عوام کو سپلائی کرنے کے بجائے ناردرن گرڈ سے بھارتی ریاستوں کودی جاتی ہے اور کشمیر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ غیراعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ سے کشمیریوں کی معیشت کو تباہ حال کردیاگیا ہے۔ کشمیر میں تسلط کو مضبوط کرنے کیلئے بعض کشمیریوں، پاکستانی حکمرانوں کی یک طرفہ لچک اور معذرت خواہانہ پالیسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
کشمیریوں کے ساتھ پاکستانیوں کاصرف محبت کا رشتہ ہی نہیں بلکہ جذباتی لگاؤ بھی ہے جس کی کئی وجوہات میں سے ایک ان کا مسلمان ہوناہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام نے ہر ممکن طریقے سے ہر موقع پر ان کی مدد کی، اور جان و مال کے نذرانے پیش کئے۔
لیکن کیا سال میں ایک دن مخصوص کر نے سے ہمارا حق ادا ہو جاتا ہے؟ کیاریلیوں اور جلوسوں میں شرکت کشمیری بھائیوں بہنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے کافی ہے؟ کیا اس طرح بھارت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا؟ کیا اس دن بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرنے سے کشمیر آزاد ہو جائے گا۔؟کیا اس ایک دن کے بدلے میں ہم اپنے رب کے حضور جوابدہی سے بچ جائیں گے؟ یقیناً سب کا جواب نفی میں ہو گا۔پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے اور شہہ رگ صرف کہہ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے کچھ تقاضے اور کچھ حقوق ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں کشمیریوں کی آزادی کا شدت سے احساس ہے اورمصیبت کے اس دور میں اگر کوئی یک جہتی کرے تو اس سے ہمت واستقامت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن وقت آگیا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ روایتی نہیں بلکہ غیرروائیتی اور عملی یکجہتی اور تعاون کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :