بنیئے کی دادا گیری اور پروین شاکر

جمعرات 6 فروری 2014

Sahaab Hijazi

سحاب حجازی

کرکٹ کے ’ بگ تھری‘ یعنی تین بڑوں کی جیت کا امکان دن بدن روشن ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)، کرکٹ ساؤتھ افریقہ (سی ایس اے) اور سری لنکا کرکٹ ( ایس ایل سی) کی تمام کوششوں کے باوجود انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پر اجارہ داری کی دیرینہ خواہش پورا ہونے میں بظاہر کوئی روکاوٹ باقی نہیں ۔

تین بڑوں کے مقابلے میں یہ ’تین بچارے‘ اپنی سی کوشش کرنے کے بعد شائدکسی کمپرومائز کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ لیکن مجھے پروین شاکر مرحومہ کی ایک غزل یاد آرہی ہے جو اس تمام صورتحال پرنہ صرف صادق آتی ہے بلکہ اُسکا ہر شعر ’متاثرین‘ کے حسبِ حال ہے۔
انگلینڈاور آسٹریلیا کے انڈیا سے تعلّقات ہمیشہ گرم و سرد رہے ہیں۔

(جاری ہے)

۸۰ ء کی دہائی میں جب آئی سی سی میں اِن دونوں گورے ممالک کے پاس ویٹو پاور تھی تو انڈیا نے پاکستان کے ساتھ مل کر اُ س کے خلاف جدّوجہد کی تھی۔

حالیہ تاریخ میں بھی انڈیا کے ان دونوں ممالک کے ساتھ کھیل کے میدان کے اندر اور باہر کافی کھینچا تانی رہی ہے۔ لیکن جب بات ہو پیسے کی تو باہمی مفادات کا جذبہ باقی ہر چیز پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یوں انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) اور کرکٹ آسٹریلیا (سی اے) بی سی سی آئی کے ہم آغوش ہو گئے اور آپس کی تمام تلخیاں مسکراہٹوں کے دبیز پردے میں ہو ا ہو گئیں ۔

گویا دونوں اسی انتظار میں تھے کہ کب درِدل وا ہوتا ہے یعنی
کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُ س نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
یہ زیادہ دُور کی بات نہیں جب ساؤتھ افریقہ بھی بی سی سی آئی کی زلفوں کا اسیر تھا۔ انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل ) کا میدان کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے لئے ہمہ وقت کھلاتھا ۔ لیکن ہارون لورگاٹ کی حق گوئی، جب وہ آئی سی سی کے صدر تھے ، انڈیا کو ناگوار گذری اور ساؤتھ افریقہ ’مہاراج‘ کی نظروں سے گر گیا۔

آ ج ساؤتھ افریقہ زبانِ حال سے گویا کہ رہا ہے
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ویسٹ انڈیز، جسکا ماضی میں طوطی بولتا تھا، آج بیچارے کی کوئی نہیں سنتا۔ اوروں کاکیا کہیں اُسکے اپنے کھلاڑی اُس کی نہیں سنتے۔ ساری دنیا میں جا کر کھیل لیتے ہیں مگر اپنے ملک کے لئے کھیلنے سے جان جاتی ہے۔

جہاں جہاں ٹی ٹوئنٹی وہاں وہاں ویسٹ انڈین موجود۔ یعنی جس نے پیسہ پھینکا اُسی کے میدان کی رونق! ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ ہمیشہ کرکٹ کے حکمرانوں کا تابعدار اور منظورِنظر رہا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کے خوف سے اُن کی جان جاتی ہے۔ آج جب کرکٹ پر ہی بن آئی ہے تو اس صورتِ حال میں بھی زیادہ ریوینیو ہی انکا مطمعِ نظر ہے۔ اور تنہائی کا خوف لگتا ہے کہ جان لیوا ہے
تیرا پہلُو تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گذرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
سری لنکا کرکٹ کے تو کیا کہنے! بچارے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔

ہر دوسرے تیسرے دن بڑے بھائی یعنی انڈیاسے نہ کھیلیں تو دال روٹی نہیں چلتی۔ اب تک تو بظاہر پاکستان اور ساؤتھ افریقہ کا ساتھ نبھا رہے ہیں لیکن تا بہ کے! ’غمِ دوراں ‘ کے ہاتھوں جلد ’مجبور‘ ہو کر ’آقا‘ کے درِدولت پر حاضر ہو جائیں گے اور ’آقا‘ مسکراتے ہوئے فرمائیں گے
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
رہ گئے ہمارے بنگلہ دیشی بھائی تو ذرا سی آنکھیں نکالنے کی دیر تھی ڈھیر ہو گئے۔

نئی تجاویز کے پلندے میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ٹیسٹ کرکٹ کو دو درجوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ اِس تجویز سے بنگلہ دیش کی سِٹی گم ہو گئی کیونکہ اُن پہ پہلے ہی ناقص کارکردگی کا بوجھ تھا۔ عوام نے آڑے ہاتھوں لیا اور بی سی بی نے یوں ہا ہا کار مچائی جیسے ٹیسٹ کرکٹ کے بے بی سے فیڈر (ٹیسٹ سٹیٹس) چھین لیا گیا ہو۔ آخر ’اُنکا‘دستِ شفقت میسّر آ ہی گیا اور یوں چپکے ہو گئے جیسے کچھ ہُوا ہی نہ تھا۔

بقول پروین شاکر
اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اب میدان میں رہ گیا پاکستان۔پاکستان کرکٹ بورڈجو پہلے ہی دہشت گردی کے باعث پانچ سال سے اپنے میدانوں پر میزبانی سے محروم ہے کرکٹ کے نئے ورلڈ آرڈر پر عملدرآمد کی صورت میںآ مدنی میں شدیدکمی کے بحران کا شکار ہو جائیگا۔ حکومت اور عدالت کے درمیان پھنسے پاکستان کرکٹ بورڈ نے شائد مزاحمت کی حکمتِ عملی تو بنالی تھی لیکن زمینی حقائق منہ کھولے کھڑے ہیں۔

نجم سیٹھی کی یاوہ گوئی کے جواب میں آئی سی سی کے بیان سے لگتاہے کہ سیٹھی صاحب سٹھیا گئے ہیں ورنہ وہاں موصوف نے مخالفت تو کُجا احتجاجی آواز تک بلند نہیں کی۔ اب عدالت عالیہ کی کرم نوازی سے جناب ذکاء اشرف پرانے منصب پر پرانی تنخواہ سمیت واپس آچکے ہیں تو دیکھتے ہیں اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ فی الحال تاثّر تو یہی دیا جا رہا ہے کہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا جا ئیگا لیکن اگر باقی دو (سری لنکا اور ساؤتھ افریقہ) نے ساتھ چھوڑ دیا تو کیا بنے گا، کیا اس کی پیش بینی کی جا چکی ہے؟ سرِدست مناسب تو یہی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے اورپہلے اپنے مفادات کے تحفّظ کو یقینی بنایا جائے ۔

باقی دونوں کو ساتھ ملا کر بگ تھری کو کسی مناسب موقّف پر قائل کرنے کی بھرپُور کوشش کی جائے۔ بنیا تو دادا گیری پر تُلا ہے لیکن اگر آسٹریلیا اور انگلینڈ کو سمجھایا جا سکے تو یہ کرکٹ کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔
نئی تجاویز اگر پاکستان کی شمولیت سے لاگو ہوتی ہیں تو شائد کچھ نقصان سے بچا جا سکے وگرنہ اکیلے رہ جانے کی صورت میں بگ تھری خصوصاََانڈیا کی مخالفت کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے ۔ ہوم گراؤنڈ پر کھیلنا تو کجا باہر جا کے کھیلنے کی خواہش بھی خواب و خیال بن کے رہ جائیگی ۔ اور یہ حال ہوگا(خدا نخواستہ) کہ
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :