”تیسری طاقت“

جمعرات 6 فروری 2014

Muhammad Usman Haider

انجینئر عثمان حیدر

طاقت کے استعمال پر اکسائے جانے کے با وجودوزیرِ اعظم نواز شریف صاحب نے دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہونے کیلئے پر امن مذاکرات کے راستے کو اپنا کر انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیا۔بلا شبہ یہ اقدام لائقِ تحسین ہے۔اس فیصلے سے جہاں موجودہ حکومت کے اخلاص پر اٹھنے والے خدشات دور ہو گئے وہیں اُن عناصر کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی جو بغیر کسی مضبوط دلیل کے مذاکرات کے آپشن کو استعمال کیے بغیر محض ذاتی یا آقائی خواہش کی بنا پر آپریشن کے متمنی تھے۔

نہ جانے یہ مملکتِ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے یا دشمنانِ پاکستان کی ”خوش قسمتی“ کہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کے آثار نظر آنے لگتے ہیں کوئی تیسری طاقت ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے میدان میں کود پڑتی ہے۔

(جاری ہے)

نجانے یہ کیسی طاقت ہے جو صرف اس وقت میدان میں آتی ہے جب دونوں ظاہری فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے رضا مند نظر آ رہے ہوں۔

کبھی یہ طاقت بدنامِ زمانہ ”ڈرون“ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے توکبھی قصہ خوانی بازار اور تبلیغی مرکزمیں انسانیت سوز بم دھماکوں کی شکل میں۔ حکومت اور طالبان دونوں کی طرف سے ان بے رحمانہ حملوں کی مذمت کی جاتی ہے مگر صد افسوس کہ آج تک اس” تیسری طاقت“ کے ادراک و تدارک کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔
جب بھی تیسری قوت کی طرف سے اس طرح کے حملے کیے جاتے ہیں میڈیا میں موجود اس تیسری طاقت کے نمائندے ایک عجیب و غریب ابہامی کیفیت پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔

یہ نام نہاد تجزیہ نگار کبھی ان حملوں کا الزام پاکستان کی اپنی خفیہ ایجنسیوں پر اور کبھی طالبان پر عائد کر کے پہلے سے کنفیوزڈ صورتحال میں مزید کنفیوژن پھیلانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اس کنفیوژن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبان کے حمایتی عناصر ان حملوں کا ذمہ دار اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر عائد کرتے نظر آتے ہیں اور ان عناصر کے مخالفین طالبان کی تردید کے باوجود ان حملوں کو طالبان کی کارروائی ثابت کرنے پر مصر رہتے ہیں۔

یہ تمام عوامل مجموعی طور پر اس قدر منفی اثرات چھوڑتے ہیں کہ مذاکرات کے امکانات معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی تو بعد کی بات ہے پہلے یہ مذاکرات شروع تو ہوں! آپریشن تو اس صورت میں ہو کہ جب خدانخواستہ مذاکرات سے کوئی حل نہ نکلے۔ لہٰذا مذاکرات ہونے کے بعد ہی کسی نتیجے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ تیسری طاقت مذاکراتی عمل کو آغاز سے قبل ہی فنا کرنے کے در پے نظر آتی ہے۔


ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی جونہی مذاکرات کے اعلان کے بعد عملی اقدامات کا آغاز ہوا، ”تیسری طاقت“ پوری شدت کے ساتھ میدان میں کود پڑی۔ میڈیامیں مذاکرات کی مخالفت سے لے کر عوامی مقامات پر بم دھماکوں تک ہر میدان میں یہ طاقت کسی نہ کسی روپ میں سرگرم نظر آتی ہے۔ حکمران ، سیاستدان، تجزیہ نگار، صحافی اور سول سوسائٹی بھی ان حملوں کا ذمہ دار ”تیسری طاقت“ کو ٹھہراتے ہیں۔

مگر صرف ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک ہماری خفیہ ایجنسیاں ، پولیس اور دوسرے متعلقہ ادارے اس” تیسری طاقت “کو بے نقاب کر کے اس کی سرکوبی کے اقدامات نہیں کرتے تب تک مذاکرات کے پر امن آپشن پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور کوئی بھی دلخراش واقعہ اس عمل کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان سے قبل اس” تیسری طاقت“ سے نمٹا جائے کیوں کہ اس پوشیدہ دشمن کو زیر کرنے کے بعدہی کسی حد تک ظاہر ی فریق یعنی طالبان سے مذاکرات کر کے قیام ِ امن کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :