پنکچر، چڑیا اور ”جمہوریت“

منگل 18 فروری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

لوگوں نے کہا کہ کپتان کی کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ اور دھاندلی ہوئی لیکن اس کے باوجود جب میاں صاحب نے پہلی تقریر کی( جو کہ نتائج سے پہلے ہی کر دی گئی تھی) بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ میاں صاحب اب پرانی روش بدلیں گے۔ اور جس تبدیلی کا نعرہ خان صاحب لگا رہے ہیں وہ میاں صاحب بھی لے کے آ سکتے ہیں۔ اس سوچ کی بہت سے وجوہات تھیں۔

ایک تو میاں صاحب اتنا عرصہ جلا وطن رہے۔( بے شک وہ معائدہ کر کے گئے لیکن جلا وطن تو بہر حال تھے)۔ دوسرا اقتدار سے اتنا عرصہ دور رہنے کے بعد یقینا ان میں کچھ ایسی تبدیلی ضرور آگئی ہو گی جو ان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بہتری کی نوید لے کر آئے گی۔
لیکن میاں صاحب کے اقتدار سنبھالنے کے بہت تھوڑے عرصے میں ہی مجھے اپنی سوچ تبدیل کرنا پڑی۔

(جاری ہے)

میرے دوست کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو ابھی وقت دینا چاہیے ملک کے حالات جتنے خراب ہیں ان کی بہتری کے لیے انہیں مناسب وقت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ بات تو درست ہے لیکن نیت بھی تو ظاہر ہو ۔ اعمال کا دارومدار ہی نیتوں پر ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی تو نیت ہی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیتی تو وہ عمل کیا خاک کریں گے۔
میاں صاحب کے اقتدار سنبھالنے کے بعد میں نے لکھا تھا کہ پچھلے ادوار میاں صاحب دائروں کے قیدی رہے اسی وجہ سے ان کو دو دفعہ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اس دفعہ بھی اگر وہ اپنی ذات کے گرد پھیلے ان دائروں کے قیدی رہے تو حالات کچھ مختلف نہیں ہو ں گے۔ اور لگتا ایسا ہی ہے کہ میاں صاحب نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اور ان دائروں کی قید سے نکلنے کے بجائے انہوں نے خود اور اور زیادہ ان دائروں میں مقید کر لیا ہے۔ ایک دائرے میں میاں صاحب صرف اپنی ذات کو رکھتے ہیں۔ دوسرے دائرے میں میاں صاحب کی فیملی کے افراد فیض یاب ہوتے ہیں۔

اور تیسرے دائرے میں میاں صاحب کے وزراء ، مشراء اور حواری شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان کا مفاد یا عوام کسی دائرے میں نہیں آتے ۔ 98ء میں کچھ تاثر پیدا ہوا کہ میاں صاحب نے شاید ایک اور دائرہ بنا لیا ہے جو پاکستان کے لیے ہے اور جمہوریت کے لیے ہے لیکن وہ دائرہ شاید عارضی تھا۔
باوردی آمریت سے تو ہمارے سیاستدان ہمیشہ سے خائف رہتے ہیں۔ اور آج تک ایوان عدل و انصاف میں اس کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے ۔

لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ایک افسوس ناک صورت حال سامنے آئی ہے کہ اب آمریت اچکن مین بھی سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔ حکومت تو جمہوری ہے لیکن اس کا رویہ آمرانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانا ہے۔ یارانِ جہاں کو کہتے سنا کہ 35پنکچر لگی ٹیوب میں دوبارہ ہوا بھر دی گئی ہے۔ اب اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنی نہیں یہ تو قارئین بہتر طور سمجھ سکتے ہیں۔

ذکا ء اشرف باوردی آمریت کا نہیں بلکہ ایک آمرانہ سوچ کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کو ہٹائے جانے کی وجوہات میں سر فہرست یہ ہے کہ انہوں نے بگ تھری کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ بہتر طور پر نہیں لڑا۔ اس پر مجھے شدید حیرت ہوئی کہ شاید یہ پہلا موقع تھا جب کبھی لگا کہ واقعی پاکستان اپنا موقف دنیا کو دکھا سکتا ہے۔ لیکن یہی بات میرے خیال میں پاکستان میں کچھ حلقوں کو ناگوار گزری۔

میرے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ یاراس ملک میں لاشیں گرنا روز کا معمول بن رہا ہے ان حالات میں ایسے موضوع پر لکھنا لفظوں کا ضیاع ہے۔ لیکن میرے لفظوں کا مقصد تو ذکاء اشرف کی حمایت نہیں بلکہ آمرانہ سوچ کو آشکار کرنا ہے۔
اس سوچ کا شکار صرف ذکاء اشرف ہی نہیں بلکہ طارق ملک اور چیئرمین پیمرا بھی ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں بادشاہت میں جیسے کسی بات سے انکار پر سر قلم کر دیا جاتا تھا ویسے جمہوریت میں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

اگر ذکاء اشرف بگ تھری کے موقف کی حمایت بھی کر دیتے تھے تو پھر بھی ان کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ پھر ان پر الزام لگتا کہ انہوں نے پیسوں کے لالچ میں آملکی وقار کا سودا کر دیا۔ لہذا جانا تو انہیں بہر حال تھا کیوں کہ ان کا قصور یہ ہے کہ ان کو تعینات سابق حکومت نے کیا تھا۔میاں صاحب نے ایک ایسے وقت مین یہ فیصلہ کیا جب ذکاء اشرف سنگا پور تھے۔ 99ء کا دور یاد آ گیا۔

شاید میاں صاحب تبدیلی کرتے ہی اس وقت ہیں جب متعلقہ شخص ملک میں نہ ہو۔ ذکاء اشرف کی برطرفی کے بعد سب سے زیادہ فائدہ "چڑیا"والے بابا جی کو ہوا۔ اس چڑیا کے پاس پتا نہیں کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ نگران وزیر اعلی کا قرعہ بھی بابا جی کے نام نکلتا ہے اور جب ایک منتخب شخص کو عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو پھر بھی اور قابل شخص دکھائی نہیں دیتا سوائے چڑیا والے بابا کے۔

میں لوگوں کی اس بات سے کھل کر اختلاف کرتا ہوں کہ 35پنکچروں کا صلہ دیا گیا۔ بلکہ میرے خیال میں تو یہ تعیناتی بابا جی کی " مسکراہٹ" کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کیوں کہ یہ اکثر لفظوں میں بات نہیں کرتے بلکہ مسکراہٹ سے ہی کام چلاتے ہیں۔ اور چڑیا سے بھی بات چیت ان کی مسکراہٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ میرے ذاتی رائے یہ تھی کہ عبوری کمیٹی میں نامزد ظہیر عباس کو خاص طور پر اس کمیٹی میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

کیوں کہ وہ ایک ایسے شخص کے زیر سایہ کام کریں گے جو کرکٹ کی الف بے سے بھی شاید واقف نہیں۔ اور اگر واقعی میاں صاحب حقیقی معنوں میں کرکٹ کی ہی بہتری چاہتے ہیں تو ظہیر عباس کو ہی چیئرمین کیوں نہیں لگا دیتے؟
باوردی آمریت کے خلاف تو لکھ لکھ کر صفحات کالے کر دیے گئے۔ بھانت بھانت کی آوازیں سن سن کر کانوں میں درد شروع ہو گیا۔ لیکن حیران کن طور پر جمہوریت کے لبادے میں آمرانہ سوچ کسی کو بری نہیں لگتی ۔

بلکہ آمرانہ سوچ کہ تحت اٹھائے گئے کسی بھی قدم کی " شاہ کے حواری" ایسے وکالت شروع کر دیتے ہیں جیسے کوئی حدیث کہہ دی گئی ہو جس کی نفی نا ممکن ہے۔
اگر یہی روش جاری رہی تو پھر اس ملک میں کبھی جمہوریت نہیں پنپ سکتی ۔ ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر آج ہم آمرانہ رویے چھوڑنے کو تیار نہیں تو پھر ہمیں اس وقت گلہ کرنے سے دستبردار ہونا پڑے گا جب کبھی حقیقی معنوں میں جمہوریت پر شب خون مارا جا رہا ہو۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔"چڑیا " ہمیں بہت سی خاص خبریں دیتی رہتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :