جوشِ خطابت کا ری ایکشن

جمعہ 21 فروری 2014

Amjad Javed

امجد جاوید

شیداٹلی اپنے دونوں ہاتھوں کو جھلاتا ہوا ، گرم گرم جلیبیاں لے کر آگیا ، اور آتے ہی تھڑے پر اعلان کر دیا ۔
” لوبھئی مترو تے سجنو، کھاؤ گرم گرم جلیبیاں اور سنو تازہ ترین خبر۔۔۔“
اب ضروری نہیں تھا کہ اس سے فرمائش ہی کی جاتی کہ خبر سناؤ، اس نے خود ہی خبر سنا دینی تھی۔ چند لمحے جب کسی نے جواب نہ دیا بلکہ جلیبیوں کی طرف توجہ رہی تو وہ بولا” بھئی اسحاق ڈار نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔


” اور یہ جلیبیاں تم اس خوشی میں لائے ہو؟“ اچھوکھتری نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
” تو اور کیا۔۔۔ یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟“ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا
” خوشی کی بات ہو یا نہ ہو ، تم اتنے خوش کیوں دکھائی دے رہے ہو، تم کون سا سرکاری ملازم ہو؟“ اچھو کھتری کو خرچہ ہو جانے کا افسوس تھا۔

(جاری ہے)


” او یار میں یہ جلیبیاں اس لئے نہیں لایا کہ میری تنخواہ بڑھ گئی ہے۔

بلکہ میں کسی اور بات پر خوش ہی نہیں مسرور بھی ہوں۔“
” وہ کیا؟“ میں نے پہلی بار مداخلت ِ بے جا کی
” یار دیکھو، عوام کی طاقت کس قدر ہے۔ انہوں نے احتجاج کا اعلان کیا، ادھر حکومت کو سوچنا پڑا کہ تنخواہیں بڑھائی جائیں۔“ شیدا ٹلی واقعی ہی مسرور دکھائی دے رہا تھا۔ تبھی اچھو کھتری نے کہا
” ویسے تم غلط سوچ رہے ہو، خزانے میں ہے کچھ نہیں، پرویز رشید نے بھی کہا ہے کہ تنخواہوں کے لئے پیسہ نہیں ہے۔

وہ کہاں سے دیں یار۔ اور پھر یہ سرکاری ملازمین بھی کیا کرتے ہیں، سارا دن دفتروں میں مکھیاں مارتے ہیں، اگر کوئی کام کرتے ہوتے تو اداروں کا یہ حال ہوتا۔ عام سکولوں سے لیکر ریلوے تک، لوڈشیڈنگ سے لیکر پولیس تک کا کیا حال ہے ۔ سب کام چور ہیں ورنہ کوئی تو ادارہ اپنی کارکردگی دکھاتا اور ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ ان کی تنخواہ قطعاً نہیں بڑھانی چاہیے۔

“ اس نے جلیبیوں کو پرے کرتے ہوئے کہا تو میں نے پھر مداخلتِ بے جا کی۔
” پہلی بات تو یہ ہے میری جان کہ کیا اداروں کو خراب کرنے اور انہیں حالوں بے حال کرنے میں سرکاری ملازمیں کا ہی ہاتھ ہے یا اس ملک کے وہ سیاست دان بھی ذمے دار ہیں، جو ان کے وزیر رہے اور ان دارون کو چلانے کی ذمہ داری ان پر تھی ، اگر کارجردگی ہی کو بنیاد بنایا جائے تو ان وزیروں اور مشیروں سے تمام تنخواہیں اور مراعات واپس لے کر ان پر جرمانہ کیا جائے کہ انہوں نے ملک اور قوم کا وقت ضائع کیا۔

اور اس کے ساتھ ساتھ سابقہ اسمبلی میں کارکردگی کو دیکھ کر ان سے بھی تنخواہیں اور مراعات واپس لے لینی چاہئے۔ جبکہ ہوتا کچھ اور ہے“
میری اس بات پر شیدا ٹلی بھناتے ہوئے بولا
” بالکل، پچھلے دور میں جب ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئیں، تو اس وقت چوہدری نثار نے برا منایا تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں کیوں بڑھائی جا رہی ہیں۔ مگر جب اسمبلی اراکین کی تنخوہوں اور مراعات میں اضافی کیا گیا تو انہیں سانپ سونگھ گیا۔

سابق وزیر اعظم گیلانی نے بھی کہا ہے کہ اسحاق ڈار سے ان سے بھی کہا تھا کہ ملازمین کی تنخوہیں نہ بڑھائیں۔ اور انہوں نے جاتے جاتے خزانہ خالی کر دیا جس کا رونا پرویز رشید رو رہے ہیں۔ جبکہ ایک وزیر اعظم ہاؤس کا خرچ نہیں مان ، بھر کو بھی وزیر اعظم ہاؤس بنا دیا۔ اس کے لئے خزانے میں پیسہ ہے؟“
” میں نہیں جانتا کہ یہ اخراجات کدھر سے ہونے ہیں یا نہیں ہونے ہیں۔

ہمارا کون سا اختیار ہے۔ ہم تو ہیں عوام اور یہاں عوام کا مطلب ہے وہ مخلوق جو ہنسی خوشی ظلم برداشت کرتی ہے۔ سمجھ میں آئی میری بات۔“
” چل چھوڑ سارے قصے تو یہ بتا کہ تو خوش کیوں ہے اور اتنا خرچہ کیوں کر دیا“ اچھو کھتری نے منہ میں رال ٹپکاتے ہوئے کہا۔ اسے جلیبیاں ٹھنڈی ہو جانے کا ڈر تھا۔
” ہاں یاد آیا کہ میں خوش کیوں ہوں۔

“ اچانک شیدے ٹلی نے کہا اور پھر بولا
” اصل میں یہ حکومت والوں کو جوش ِ خطابت میں بہت کچھ کہہ جانے کا شوق تھا۔ انہوں نے سوچا کہ الیکشن کے دنوں کے وعدے ’جوش خطابت ‘ کے کھاتے میں ڈال کر عوام کو بت وقوف بنا دو۔ لیکن انہیں شاید نہیں پتہ کہ اب وہ دور نہیں رہا۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔“
” پر تو خوش کیوں ہے؟“ میں نے پوچھا
” مجھے خوشی یہ ہے کہ انہوں نے اپنا جوشِ خطابت دکھایا اور عوام کو ریلیف نہیں دیا۔

مگر عوام اس پر اٹھ کھڑی ہوئی۔ پورے ملک میں احتجاج کی گونج سنائی دینے لگی۔ مطلب ان کے جوشِ کطابت کا ری ایکشن سامنے آگیا ہے۔ اور اب آئندہ بھی آتا رہے گا ۔ انہوں نے عوام کو سبق خود دے دیا ہے“
میں شیدے ٹلی کو دیکھتا رہا جبکہ اچھو کھتری جلیبیاں کھانے لگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :